Thursday, November 27, 2014

قابل اجمیری



حیرتوں کے سلسلے سوزِ نہاں تک آ گئے

ہم نظر تک چاہتے تھے تم تو جاں تک آ گئے



نامرادی اپنی قسمت، گمرہی اپنا نصیب
کارواں کی خیر ہو، ہم کارواں تک آ گئے



انکی پلکوں پر ستارے اپنے ہونٹوں پر ہنسی
قصہٴ غم کہتے کہتے ہم کہاں تک آ گئے



اپنی اپنی جستجو ہے اپنا اپنا شوق ہے
تم ہنسی تک بھی نہ پہنچے ہم فغاں تک آ گئے

زلف میں خوشبو نہ تھی یا رنگ عارض میں نہ تھا
آپ کس کی آرزو میں گلستاں تک آ گئے

خود تمھیں چاکِ گریباں کا شعور آ جائے گا
تم وہاں تک آ تو جاؤ، ہم جہاں تک آ گئے

آج قابل میکدے میں انقلاب آنے کو ہے
اہلِ دل اندیشہٴ سود و زیاں تک آ گئے

قابل اجمیری


اعتبارِ نگاہ کر بیٹھے
کتنے جلوے تباہ کر بیٹھے

آپ کا سنگِ در نہیں چمکا
ہم جبینیں سیاہ کر بیٹھے

موت پر مسکرانےآئےتھے
زندگانی تباہ کر بیٹھے

شمعِ امید کے اُجالے میں
کتنی راتیں سیاہ کر بیٹھے

صرف عذرِ گناہ ہو نہ سکا
ورنہ سارے گناہ کر بیٹھے

کس توقع پہ اہلِ دل قابل
زندگی سے نباہ کر بیٹھے

0 comments:

Post a Comment