Friday, November 14, 2014

واصف علی واصف



رونق بزم طرب ، یاد نہ کر ،

زیست کے غم کا سبب ، یاد نہ کر ،
.
دیکھ انداز عطا بھی اس کا ،
اپنا انداز طلب ، یاد نہ کر ،
.
ہم کلامی کی ضرورت بھی سمجھ ،
صرف دستور ادب ، یاد نہ کر ،
.
کس طرح آئی سحر غور سے دیکھ ،
کس طرح گزری ہے شب ،یاد نہ کر ،
.
کیا ہوا اس کی ملاقات کے بعد ،
وہ ملا تھا تجھے کب ، یاد نہ کر ،
.
.
دیکھ کردار کی جانب ، واصف ،،
رتبہ و جاہ و نسب ، یاد نہ کر ،،
.
واصف علی واصف




نہ آیا ہوں نہ میں لایا گیا ہوں
میں حرفِ کن ہوں فرمایا گیا ہوں

میری اپنی نہیں ہے کوئی صورت
ہر اک صورت سے بہلایا گیا ہوں

بہت بدلے میرے انداز لیکن
جہاں کھویا وہیں پایا گیا ہوں

وجودِ غیر ہو کیسے گوارا
تیری راہوں میں بے سایا گیا ہوں

نجانے کون سی منزل ہے واصف
جہاں نہلا کے بلوایا گیا ہوں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واصف علی واصف




0 comments:

Post a Comment