Wednesday, November 26, 2014

ثاقب لکھنوی



ایک ایک گھڑی اُس کی قیامت کی گھڑی ہے

جو ہجر میں تڑپائے، وہی رات بڑی ہے



یہ ضُعف کا عالم ہے کہ ، تقدیر کا لِکھّا
بستر پہ ہُوں میں یا ، کوئی تصویر پڑی ہے



بیتابئ دل کا ، ہے وہ دِلچسپ تماشہ !
جب دیکھو شبِ ہجر مِرے در پہ کھڑی ہے



اب تک مجھے کُچھ اور دِکھائی نہیں دیتا
کیا جانیے کِس آنکھ سے یہ آنکھ لڑی ہے

آدھی سے زیادہ شبِ غم کاٹ چُکا ہوں
اب بھی اگر آجاؤ تو یہ رات بڑی ہے

ثاقب لکھنوی



پتی پتی سے نہ خون اُبلے تو مجرم جاننا
ذبح میں ہولوں تو پھر رنگ گلستاں دیکھنا

کائناتِ موت دامن میں لئے ہیں دل کے زخم
درد اگر کم ہو تو تم سوئے نمکداں دیکھنا

ہستی فانی پہ اک اصرار تھا تقدیر کو
ورنہ کب منظور تھا خواب پریشاں دیکھنا

پیس ڈالا خواہش بے جا نے کوہِ طور کو
دل کی قوت دیکھ لے پھر روئے جاناں دیکھنا

ثاقب لکھنوی




0 comments:

Post a Comment