Sunday, November 30, 2014

ناصر کاظمی





پھر ساون رت کی پون چلی تم یاد آئے
پھر پتوں کی پازیب بجی تم یاد آئے



پھر کونجیں بولیں گھاس کے ہرے سمندر میں
رت آئی پیلے پھولوں کی تم یاد آئے

پھر کاگا بولا گھر کے سونے آنگن میں
پھر امرت رس کی بوند پڑی تم یاد آئے

پہلے تو میں چیخ کے رویا اور پھر ہنسنے لگا
بادل گرجا بجلی چمکی تم یاد آئے

دن بھر تو میں دنیا کے دھندوں میں کھویا رہا
جب دیواروں سے دھوپ ڈھلی تم یاد آئے

ناصر کاظمی 



پتّھر کا وہ شہر بھی کیا تھا
شہر کے نیچے شہر بسا تھا

پیڑ بھی پتّھر، پُھول بھی پتّھر
پتّا پتّا پتّھر کا تھا

چاند بھی پتّھر، جھیل بھی پتّھر
پانی بھی پتّھر لگتا تھا

لوگ بھی سارے پتّھر کے تھے
رنگ بھی اُن کا پتّھر سا تھا

پتّھر کا اک سانپ سنہرا
کالے پتّھر سے لپٹا تھا

پتّھر کی اندھی گلیوں میں
میں تجھے ساتھ لیے پھرتا تھا

گونگی وادی گُونج اُٹھتی تھی
جب کوئی پتّھر گِرتا تھا

ناصر کاظمی 




0 comments:

Post a Comment