Thursday, November 27, 2014

نوید رزاق بٹ


" تشخص "

(پاکستانی نوجوان کے نام)



تجھے پہچاں نہیں اپنی

تِری پہچان کیا ہوگی؟
گلِ بے رنگ و بُو تجھ سے
چمن کی شان کیا ہوگی؟
تڑپ نا آشنا ہے تُو
دلِ بیدار پیدا کر!
تِرا چہرہ ہے بے چہرہ
لب و رُخسار پیدا کر!
فسانہ لکھ جہاں کا تُو
نئے کردار پیدا کر!
تخیل کی زمیں ہو جا
گُل و گلزار پیدا کر!
ہے تیری ذات میں مضمر
تِری مشکل کا حل ناداں!
شروع ہو گا سفر یوں ہی
قدم دو چار چل ناداں!
بموجِ نغمہء ہستی
سنبھل ناداں، مچل ناداں!




نشانہ آزمایا جا رہا ہے
ہمیں ناحق ستایا جا رہا ہے

جلا کر چل دیے جو آشیاں کو
انہیں پھر سے بلایا جا رہا ہے

جسے لکھا ہمارے دشمنوں نے
وہ نغمہ گنگنایا جا رہا ہے

چراغِ راہ تو بجھ ہی چکے تھے
چراغِ جاں بجھایا جا رہا ہے

یہاں جمہوریت کا نام لے کر
تماشا کیا دکھایا جا رہا ہے

نوالہ چھین کر محنت کشوں سے
نوابوں کو کھلایا جا رہا ہے

غضب خالی خزانہ ہے جسے یوں
دو ہاتھوں سے لُٹایا جا رہا ہے

عجب کھانے کی عادت ہو گئی ہے
کہ اِک دوجے کو کھایا جا رہا ہے

خدا کے نام پر کر کے تجارت
سکونِ قلب پایا جا رہا ہے

زباں بندی کی قیمت لگ رہی ہے
قلم سولی چڑھایا جا رہا ہے

خلیفہ نرم دل ہیں رو پڑیں گے
غریبوں کو بھگایا جا رہا ہے

نہیں دنیا سِوا اِک رہگزر کے
رُکا نہ اِک، جو آیا، جا رہا ہے




"اجازت"

او جانے والے
چلے ہی جانا
ذرا رکو تو
ذرا، سنو تو

تمھاری خاطر جو لمحہ لمحہ بکھرتے آنسو جمع کئے تھے
جو درد سارے یوں سہ لئے تھے
اُن آنسوؤں کا حساب لے لو
سلام کہہ دو جواب لے لو
چلے ہی جانا
ذرا رکو تو
ذرا، سنو تو

جو دِیپ دل کی اندھیر راہوں میں رفتہ رفتہ ہوئے تھے روشن
جو گیت کرتے تھے تیرے درشن
وہ گیت سارے وہ دِیپ سارے
جلا کے جانا بجھا کے جانا
نظر نظر سے مِلا کے جانا
چلے ہی جانا
ذرا رکو تو
ذرا، سنو تو

قدم قدم پر بکھرتے پتّے تمھاری یادیں کریں گے تازہ
یہ سب بہاریں بھی ساتھ لے لو
چہکتے بلبل کا ساز لے لو
گُلوں کی رنگت کا راز لے لو
تمام منظر سراب کر دو
سبھی امنگوں کو خواب کر دو
سنو!
یہ کارِ ثواب کر دو
چلے ہی جانا
ذرا رکو تو
ذرا، سنو تو

- نوید رزاق بٹ





بھری محفل میں وہ تنہا رہا ہے
کہ جس دل کو تِرا سودا رہا ہے
کِیا ہے جس نے مذہب عشق اپنا
زمانے بھر میں وہ رُسوا رہا ہے
ثنا خوانوں کی سازش ہے یقینا
بُرا ہر دور میں اچھا رہا ہے
لکیریں ہاتھ کی وِیران ہیں اب
کبھی اِن میں تِرا چہرہ رہا ہے
حقیقت جانتا ہے ہر بَلا کی
مصیبت میں بھی جو ہنستا رہا ہے
سبھی کردار سہمے پھر رہے ہیں
نہ جانے موڑ کیسا آ رہا ہے
بجھے گی پیاس اِک دن، اِس ہوس پر
لبِ ساحل لبِ دریا رہا ہے
وفا کے گیت گاتا حُسن صاحب
یونہی دل آپ کا بہلا رہا ہے

نویدؔ رزاق بٹ

0 comments:

Post a Comment