Sunday, November 30, 2014

شہزاد قیس



بہار ، شانِ چمن ہے ، وَقار ہے تتلی
بہار کہتی ہے ’’اُوں ہُوں بہار ہے تتلی‘‘

گُلوں کی دید سے ہے خوشگوار رَنگِ چمن
نگاہِ گُل کے لیے خوشگوار ہے تتلی

یہ چومتی نہیں ، گُل اُنگلیوں پہ گنتی ہے
حسین پھولوں کی مردُم شمار ہے تتلی

چمن میں غیر مناسِب مَناظِر اَپنی جگہ
کمالِ ذوق کا اِک شاہکار ہے تتلی

عُدو کو پھول کے بھٹکا کے دُور لے جائے
حسین غنچوں کا دِلکش حِصار ہے تتلی

ذِرا بھی کرتی نہیں اِنحراف فطرت سے
بہشتی پھول ہے ، پرہیز گار ہے تتلی

پروں پہ تتلی کے شہباز واہ واہ کرے
سفید مورنی کا اِفتخار ہے تتلی

جو اِس کو دیکھ لیں دِل باغ کو مچلتا ہے
چمن کا اُڑتا ہُوا اِشتہار ہے تتلی

گُلوں سے گوریاں ، گورے بدن میں رَنگ بھریں
گُلوں کے رُوپ کو سولہ سنگھار ہے تتلی

یہ حُسنِ زَن تو بہت بعد آنکھ کو بھایا
حُضور یاد کریں پہلا پیار ہے تتلی

جو نوچ لیتے ہیں پر زِندہ تتلیوں کے قیسؔ
اے کاش سوچتے کہ جاندار ہے تتلی

0 comments:

Post a Comment