Saturday, November 29, 2014

فیاض ہاشمی



آج جانے کی ضد نہ کرو
یونہی پہلو میں بیٹھے رہو۔
ہائے مر جائیں گے
ہم تو لٹ جائیں گے
ایسی باتیں کیا نہ کرو
آج جانے کی ضد نہ کرو
تم ہی سوچو ذرا کیوں نہ روکیں تمھیں
جان جاتی ہے جب اٹھ کے جاتے ہو تم
تم کو اپنی قسم جانِ جاں
بات اتنی میری مان لو
آج جانے کی ضد نہ کرو
یونہی پہلو میں بیٹھے رہو
وقت کی قید میں زندگی ہے مگر
چند گھڑیاں یہی ہیں جو آزاد ہیں
ان کو کھو کر میری جانِ جاں
عمر بھر نہ ترستے رہو
آج جانے کی ضد نہ کرو
ہائے مر جائیں گے
ہم تو مٹ جائیں گے
ایسی باتیں کیا نہ کرو
کتنا معصوم رنگین ہے یہ سماں
حسن اور عشق کی آج معراج ہے
کل کی کس کو خبر جانِ جاں
روک لو آج کی رات کو
آج جانے کی ضد نہ کرو

0 comments:

Post a Comment