Thursday, November 27, 2014

احمد ندیم قاسمی


بگڑ کے مجھ سے وہ میرے لئے اُداس بھی ہے

وہ زود رنج تو ہے، وہ وفا شناس بھی ہے


تقاضے جِسم کے اپنے ہیں، دل کا مزاج اپنا
وہ مجھ سے دور بھی ہے، اور میرے آس پاس بھی ہے

نہ جانے کون سے چشمے ہیں ماورائے بدن
کہ پا چکا ہوں جسے، مجھ کو اس کی پیاس بھی ہے

وہ ایک پیکرِ محسوس، پھر بھی نا محسوس
میرا یقین بھی ہے اور میرا قیاس بھی ہے

حسیں بہت ہیں مگر میرا انتخاب ہے وہ
کہ اس کے حُسن پہ باطن کا انعکاس بھی ہے

ندیم اُسی کا کرم ہے، کہ اس کے در سے ملا
وہ ا یک دردِ مسلسل جو مجھ کو راس بھی ہے

احمد ندیم قاسمی



تجھے کھو کر بھی تجھے پاؤں، جہاں تک دیکھوُں
حُسنِ یزداں سے تجھے حُسنِ بُتاں تک دیکھوُں
توُ نے یوُں دیکھا ھے، جیسے کبھی دیکھا ھی نہ تھا
میں تو دِل میں تِرے قدموں کے نشاں تک دیکھوُں
فقط اِس شوق میں پوُچھی ھیں ھزاروں باتیں
میں تِرا حُسن، تِرے حُسنِ بیاں تک دیکھوُں
میرے ویرانہء جاں میں، تِرے غم کے دَم سے
پھوُل کِھلتے نظر آتے ھیں، جہاں تک دیکھوُں
وقت نے ذھن میں دُھندلا دیے تیرے خدوخال
یوُں تو میں ٹوُٹتے تاروں کا دھوُاں تک دیکھوُں
دِل گیا تھا تو یہ آنکھیں بھی کوئی لے جاتا
میں فقط ایک ھی تصویر کہاں تک دیکھوُں
اِک حقیقت سہی فردوس میں حوُروں کا وجوُد
حُسنِ اِنساں سے نمٹ لوُں تو وھاں تک دیکھوُں
احمد ندیم قاسمی




گُل ترا رنگ چرا لائے ہیں گلزاروں میں
جل رہا ہوں بھری برسات کی بوچھاروں میں

مجھ سے کترا کے نکل جا مگر اے جانِ جہاں!
دل کی لَو دیکھ رہا ہوں ترے رخساروں میں

مجھ کو نفرت سے نہیں پیار سے مصلوب کرو
میں بھی شامل ہوں محبت کے گنہ گاروں میں

حُسن بیگانۂ احساسِ جمال اچھا ہے
غنچے کھِلتے ہیں تو بِک جاتے ہیں بازاروں میں

ذکر کرتے ہیں ترا مجھ سے بعنوانِ جفا
چارہ گر پھول پرو لائے ہیں تلواروں میں

میرے کِیسے میں تو اک سُوت کی انٹی بھی نہ تھی
نام لکھوا دیا یوسف کے خریداروں میں

رُت بدلتی ہے تو معیار بدل جاتے ہیں
بلبلیں خار لیے پھرتی ہیں منقاروں میں

چُن لے بازارِ ہنر سے کوئی بہروپ ندیمؔ
اب تو فنکار بھی شامل ہیں اداکاروں میں

0 comments:

Post a Comment