Wednesday, November 26, 2014

فیض احمد فیض


تیرگی ہے کہ امنڈتی ہی چلی آتی ہے

شب کی رگ رگ سے لہو پھوٹ رہا ہو جیسے

چل رہی ہے کچھ اس انداز سے نبضِ ہستی

دونوں عالم کا نشہ ٹوٹ رہا ہو جیسے



رات کا گرم لہو اور بھی بہہ جانے دو

یہی تاریکی تو ہے غازۂ رخسارِ سحر



صبح ہونے ہی کو ہے اے دلِ بیتاب ٹھہر


ابھی زنجیر چھنکتی ہے پسِ پردۂ ساز
مطلق الحکم ہے شیرازۂ اسباب ابھی
ساغرِ ناب میں آنسو بھی ڈھلک جاتے ہیں
لغزشِ پا میں ہے پابندیِ آداب ابھی

اپنے دیوانوں کو دیوانہ تو بن لینے دو
اپنے میخانوں کو میخانہ تو بن لینے دو
جلد یہ سطوتِ اسباب بھی اُٹھ جائے گی
یہ گرانباریِ آداب بھی اُٹھ جائے گی

خواہ زنجیر چھنکتی ہی، چھنکتی ہی رہے

فیض احمد فیض



ہارٹ اٹیک

درد اتنا تھا کہ اس رات دلِ وحشی نے
ہر رگِ جاں سے الجھنا چاہا
ہر بُنِ مُو سے ٹپکنا چاہا
اور کہیں دور ترے صحن میں گویا

پتا پتا مرے افسردہ لہو میں دھل کر
حسنِ مہتاب سے آزردہ نظر آنے لگا
میرے ویرانہء تن میں گویا
سارے دُکھتے ہوئے ریشوں کی طنابیں کُھل کر
سلسلہ وار پتا دینے لگیں
رخصتِ فاصلہء شوق کی تّیاری کا
اور جب یاد کی بجھتی ہوئی شمعوں میں نظر آیا کہیں
ایک پل آخری لمحہ تری دلداری کا
درد اتنا تھا کہ اس سے بھی گزرنا چاہا
ہم نے چاہا بھی ، مگر دل نہ ٹھہرنا چاہا

فیض احمد فیض




اب کے برس دستورِستم میں کیا کیا باب ایزاد ہوئے

جو قاتل تھے مقتول ہوئے، جو صید تھے اب صیّاد ہوئے

پہلے بھی خزاں میں باغ اجڑے پر یوں نہیں جیسے اب کے برس
سارے بوٹے پتہ پتہ روش روش برباد ہوئے

پہلے بھی طوافِ شمعِ وفا تھی، رسم محبت والوں کی
ہم تم سے پہلے بھی یہاں منصور ہوئے، فرہاد ہوئے

اک گل کے مرجھانے پر کیا گلشن میں کہرام مچا
اک چہرہ کمھلا جانے سے کتنے دل ناشاد ہوئے

فیض، نہ ہم یوسف نہ کوئی یعقوب جو ہم کو یاد کرے
اپنی کیا، کنعاں میں رہے یا مصر میں‌ جا آباد ہوئے





دشتِ تنہائی میں، اے جانِ جہاں، لرزاں ہیں

تیری آواز کے سائے، ترے ہونٹوں کے سراب
دشتِ تنہائی میں، دوری کے خس و خاک تلے
کھل رہے ہیں، تیرے پہلو کے سمن اور گلاب

اٹھ رہی ہے کہیں قربت سے تری سانس کی آنچ
اپنی خوشبو میں سلگتی ہوئی مدھم مدھم
دور۔افق پار چمکتی ہوئی قطرہ قطرہ
گر رہی ہے تری دلدار نظر کی شبنم

اس قدر پیار سے، اے جانِ جہاں، رکھا ہے
دل کے رخسار پہ اس وقت تری یاد نے ہات
یوں گماں ہوتا ہے، گرچہ ہے ابھی صبح فراق
ڈھل گیا ہجر کا دن آ بھی گئی وصل کی رات

فیض احمد فیض




شیخ صاحب سے رسم و راہ نہ کی

شکر ہے زندگی تباہ نہ کی

تجھ کو دیکھا تو سیر چشم ہُوے
تجھ کو چاہا تو اور چاہ نہ کی

تیرے دستِ ستم کا عجز نہیں
دل ہی کافر تھا جس نے آہ نہ کی

تھے شبِ ہجر، کام اور بہت
ہم نے فکرِ دلِ تباہ نہ کی

کون قاتل بچا ہے شہر میں فیض
جس سے یاروں نے رسم وراہ نہ کی

فیض احمد فیض



گلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے

چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
قفس اداس ہے یارو صبا سے کچھ تو کہو
کہیں تو بہرِ خدا آج ذکرِ یار چلے
کبھی تو صبح ترے کنجِ لب سے ہو آغاز
کبھی تو شب سرِ کاکل سے مشکبار چلے
بڑا ھے درد کا رشتہ، یہ دل غریب سہی
تمہارے نام پہ آئیں گے غمگسار چلے
جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شبِ ہجراں
ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے
حضورِ‌ یار ہوئی دفترِ جنوں کی طلب
گرہ میں لے کے گریباں کا تار تار چلے
مقام، فیض، کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

فیض احمد فیض 





نہ کسی پہ زخم عیاں کوئی، نہ کسی کو فکر رفو کی ہے

نہ کرم ہے ہم پہ حبیب کا، نہ نگا ہ ہم پہ عدو کی ہے

صفِ زاہداں ہے تو بے یقیں، صفِ میکشاں ہے تو بے طلب
نہ وہ صبح درود و وضو کی ہے، نہ وہ شام جام و سبو کی ہے

کفِ باغباں پہ بہارِ گل کا ہے قرض پہلے سے بیشتر
کہ ہر ایک پھول کے پیرہن، میں نمود میرے لہو کی ہے

نہیں ‌خوفِ روزِ سیہ ہمیں، کہ ہے فیض ظرفِ نگاہ میں
ابھی گوشہ گیر وہ اک کرن، جو لگن اُس آئینہ رُو کی ہے

فیض احمد فیض






کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں، کب ہات میں تیرا ہات نہیں

صد شکر کہ اپنی راتوں میں اب ہجر کی کوئی رات نہیں

مشکل ہے اگر حالات وہاں، دل بیچ آئیں جاں دے آئیں
دل والو کوچۂ جاناں میں‌کیا ایسے بھی حالات نہیں

جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا، وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے ، اس جاں کی تو کوئی بات نہیں

میدانِ وفا دربار نہیں یاں‌ نام و نسب کی پوچھ کہاں
عاشق تو کسی کا نام نہیں، کچھ عشق کسی کی ذات نہیں

گر بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنا، ہارے بھی تو بازی مات نہیں





چشمِ نم، جانِ شوریدہ کافی نہیں

تہمتِ عشق پوشیدہ کافی نہیں
آج بازار میں پابجولاں چلو
دست افشاں چلو ، مست و رقصاں چلو
خاک بر سر چلو ، خوں بداماں چلو
راہ تکتا ہے سب شہرِ جاناں چلو
حاکم شہر بھی ، مجمعِ عام بھی
تیرِ الزام بھی ، سنگِ دشنام بھی
صبحِ ناشاد بھی ، روزِ ناکام بھی
ان کا دم ساز اپنے سوا کون ہے
شہرِ جاناں میں اب باصفا کون ہے
دستِ قاتل کے شایاں رہا کون ہے
رختِ دل باندھ لو دل فگارو چلو
پھر ہمیں قتل ہو آئیں یار چلو




مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ


میں نے سمجھا تھا کہ تو ہے تو درخشاں ہے حیات
تیرا غم ہے تو غمِ دہر کا جھگڑا کیا ہے
تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے؟
تو جو مل جائے تو تقدیر نگوں ہو جائے
یوں نہ تھا، میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا

ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم
ریشم و اطلس و کمخاب میں بُنوائے ہوئے
جابجا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم
خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے

لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجے
اب بھی دلکش ہے ترا حسن مگر کیا کیجے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں میں محبت کے سوا
راحتیں او ربھی ہیں وصل کی راحت کے سوا

مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ







ہم مسافر یونہی مصروفِ سفر جائیں گے
بے نشاں ہو گئے جب شہر تو گھر جائیں گے

کس قدر ہو گا یہاں مہر و وفا کا ماتم
ہم تری یاد سے جس روز اتر جائیں گے

جوہری بند کیے جاتے ہیں بازارِ سخن
ہم کسے بیچنے الماس و گہر جائیں گے

نعمتِ زیست کا یہ قرض چکے گا کیسے
لاکھ گھبرا کے یہ کہتے رہیں، مر جائیں گے


شاید اپنا بھی کوئی بیت حُدی خواں بن کر
ساتھ جائے گا مرے یار جدھر جائیں گے

فیض آتے ہیں رہِ عشق میں جو سخت مقام
آنے والوں سے کہو ہم تو گزر جائیں گے



گلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے

قفس اداس ہے یارو صبا سے کچھ تو کہو
کہیں تو بہرِ خدا آج ذکرِ یار چلے


کبھی تو صبح ترے کنجِ لب سے ہو آغاز
کبھی تو شب سرِ کاکل سے مشکبار چلے

بڑا ھے درد کا رشتہ، یہ دل غریب سہی
تمہارے نام پہ آئیں گے غمگسار چلے

جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شبِ ہجراں
ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے

حضورِ‌ یار ہوئی دفترِ جنوں کی طلب
گرہ میں لے کے گریباں کا تار تار چلے

مقام، فیض، کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

فیض احمد فیض

0 comments:

Post a Comment