Friday, November 28, 2014

اداؔ جعفری


حال کُھلتا نہیں جبینوں سے

رنج اُٹھائے ہیں کن قرینوں سے



رات آہستہ گام اُتری ہے
درد کے ماہتاب زینوں سے



ہم نے سوچا نہ اُس نے جانا ہے
دل بھی ہوتے ہیں آبگینوں سے



کون لے گا شرارِ جاں کا حساب
دشتِ امروز کے دفینوں سے



تو نے مژگاں اُٹھا کے دیکھابھی
شہر خالی نہ تھا مکینوں سے



آشنا آشنا پیام آئے
اجنبی اجنبی زمینوں سے



جی کو آرام آ گیا ہے اداؔ
کبھی طوفاں ۔۔۔۔ کبھی سفینوں سے



اداؔ جعفری






ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آئے 
آئے تو سہی بر سرِ الزام ہی آئے

حیران ہیں، لب بستہ ہیں، دل گیر ہیں غنچے
خوشبو کی زبانی تیرا پیغام ہی آئے

لمہحاتِ مسرت ہیں تصوّر سے گریزاں
یاد آئے ہیں جب بھی غم و آلام ہی آئے

تاروں سے سجالیں گے رہ شہرِ تمنّا
مقدور نہیں صبح ، چلو شام ہی آئے

کیا راہ بدلنے کا گلہ ہم سفروں سے
جس راہ سے چلے تیرے در و بام ہی آئے

تھک ہار کے بیٹھے ہیں سرِ کوئے تمنّا
کام آئے تو پھر جذبئہِ نام ہی آئے

باقی نہ رہے ساکھ ادا دشتِ جنوں کی 
دل میں اگر اندیشہ انجام ہی آئے

ادا جعفری

0 comments:

Post a Comment