Thursday, November 27, 2014

ندیم بھابھہ



عشق میں ہارے ہوئے جسم
تم نے دیکھی ہے کبھی
عشق کے مست قلندر کی دھمال
درد کی لے میں پٹختا ہوا سر اور تڑپتا ہوا تن من
پیر پتھر پہ بھی پڑ جائیں تو دھول اٹھنے لگے
اور کسی دھیان میں لپٹا ہوا یہ ہجر زدہ جسم
رقص کرتا ہوا گر جائے کہیں
تو زمیں درد کی شدت سے تڑپنے لگ جائے
ہجر کی لمبی مسافت کا رِدھم گھوڑوں کی ٹاپوں میں گندھا ہے
رقص دراصل ریاضت ہے کسی ایسے سفر کی
جسے وہ کر نہیں پایا
تم نے دیکھے ہیں کبھی
شہر کے وسط میں گھڑیال کے روندے ہوئے پل
جن میں چاہت کے ہزاروں قصے
عشق کے سبز اجالے میں کئی زرد بدن
اپنے ہونے کی سزا کاٹ رہے ہیں
تم نے دیکھے نہیں شاید
عشق میں ہارے ہوئے جسم
جسم ایسے جو کبھی پوریں بھی کٹ جائیں
توپھر خوں کی جگہ اشک نکلتے ہیں وہاں
حسرتیں دل میں چھپائے ہوئے کچھ لوگ یہاں
دم بدم بہتی ہوئی آنکھوں سے لکھتے ہیں کہانی
یہ نئی بات نہیں
واقعہ ایک ہے کردار بدل جاتے ہیں
ایک تیشہ ہے مگر وار بدل جاتے ہیں

ندیم بھابھہ

0 comments:

Post a Comment