Friday, November 14, 2014

داغ دہلوی


.جنوں میں جب مرے لب سے فغاں نکلتی ہے ،

زباں خار سے بھی الا ماں نکلتی ہے ،

.

براۓ ام نکالے نکالے فلک مرے ارماں ،

جو ہے نکلنے کی حسرت کہاں نکلتی ہے ،
.
پس فنا بھی اثر ہے یہ بے قراری کا ،
کہ میری قبر سے ریگ رواں نکلتی ہے ،
.
ہوا ہوں میں ہمہ تن تیرے لطف کا شاکر ،...
کہ رو نگٹوں کے عوض بھی زباں نکلتی ہے ،
.
نکالے نشتر جراح پھانس یا کانٹا ،
گڑی ہے دل میں جو برچھی کہاں نکلتی ہے ،
.
انھوں نے گیسوئے پر خم کو کر دیا سیدھا ،
تری کجی بھی اب اے آسماں نکلتی ہے ،
.
تری گلی میں ہے کیا جمع دل جلوں کی خاک ،
کہ خلق راہ سے دامن کشاں نکلتی ہے ،
.
بشر کی موت ہو دنیا میں حشر عقبه میں ،
کہاں یہ گڑتی ہے میت کہاں نکتی ہے ,
.
ترا جمال جو دیکھا تو آئینے نے کہا ،
ہزار میں بھی یہ صورت کہاں نکلتی ہے ،
.
نکالتے ہیں اسی وقت وہ بھی مانگ اپنی ،
اندھیری رات میں جب کہکشاں نکلتی ہے ،
.
جگر کے پار جو ہوتا ہے خنجر قاتل ،
وہاں زخم سے گویا زبان نکلتی ہے،
.
شب فراق میں اے آہ تو سہارا دے ،
کہ روح تن سے بہت ناتواں نکلتی ہے ،
.
اسی کی دیکھتے ہیں ہر مکان میں تصویر ،
وہی نکلتی ہے صورت جہاں نکلتی ہے ،
.
وہاں گیا بھی نہیں ان سے کچھ کہا بھی نہیں ،
ابھی سے جان تری پاسباں نکلتی ہے ،
.
رقیب آپ کی محفل سے یوں نکلتے ہیں ،
کہ جیسے باغ سے فصل خزاں نکلتی ہے ،
.
جگر کے ٹکرے کیے ضبط عشق نے شاید ،
کہ تیغ آہ مری خوں چکاں نکلتی ہے ،

جبیں کے بل بھی کھلیں پیچ زلف کے بھی مٹیں ،
گرہ پڑی ہوئی دل کی کہاں نکلتی ہے ،
.
رواج پاۓ نہ پاۓ کچھ اس سے بحث نہیں ،
وفا کی رسم نئی ان کے ہاں نکلتی ہے ،
..
..
.نشان ، داغ ، سخن گو کی قبر کا ہے یہی ،
بجاۓ سبزہ زمیں سے زباں نکلتی ہے ،
-

. داغ دہلوی .،



اللہ شوق دے مجھے نعتِ شریف کا
شہرہ ہو خوب میرے کلامِ لطیف کا

سر سبز کشتِ دل ہے محمد کے عشق میں
کیا اس زمین میں کام ربیع و خریف کا

اللہ رے اُس کے علم لدنی کا معجزہ
اُمّی سبق پڑھائے کتابِ شریف کا

حسر ت جس آبرو کی سلیمان کو رہی
یثرب میں ہے وہ مرتبہ مور ضیعف کا

شیطان بھاگتا ہے محمدؐ کے نام سے
کیا خوف اُس پلیدو خبیث و کثیف کا

مداح مصطفی سے کرے کوئی بحث کیا
سبحان ہے خوشہ چیں مری طبع ظریف کا

ادنیٰ شجاعت احمد مرسل کی دیکھنا
کیا حال جنگ بدر میں تھا ہر حریف کا

ہے نا تواں عشق محمدؐ وہ پہلوان
رستم سے ہو مقابلہ کب اُس نحیف کا

صبر جمیل تھا کہ ستم پر ستم سہا
بو جہل و بو لہب سے ذلیل و خفیف کا

اے داغ شعر ڈھل گئے نعت شریف میں
ہے فکر قافیہ نہ ترددد ریف کا





جب ان سے حالِ دلِ مبتلا کہا، تو کہا ۔ "بچائے تجھ سے خدا"
کچھ اور اس کے سوا مدعا کہا، تو کہا ۔ "ہماری جانے بلا"

کہا جو ان سے کہ ہو سر سے پاؤں تک بے عیب ۔ تو بولے وہ "لاریب"
دغا شعار و ستم آشنا کہا، تو کہا ۔ "ملے گی تجھ کو سزا"

غمِ فراق سنایا تو سن کے فرمایا ۔ "ہمیں نہ رحم آیا"
رقیب کا جو ذرا ماجرا کہا، تو کہا ۔ "یوں ہی سہی، تجھے کیا؟"

نہ دل دہی کا نہ عاشق کی جاں نوازی ہے ۔ "یہ بے نیازی ہے"
عذابِ پرسشِ روزِ جزا کہا، تو کہا ۔ "ہمیں نہیں پروا"

"خدا کے بندوں پر ایسا ستم روا نہ کرو ۔ "ذرا خدا سے ڈرو"
کسی غریب نے با التجا کہا، تو کہا ۔ "کسی کو کیوں چاہا"

شکایتِ طپشِ غم سے کیا ہو دل ٹھنڈا ۔ "اثر ہو جب الٹا"
تمہاری باتوں سے دل جل گیا کہا، تو کہا ۔ "جلانے میں ہے مزا"

عدو کا ذکر جو وہ چھیڑ سے نکالتے ہیں ۔ "وہ صاف ٹالتے ہیں"
یہ کیا طریق ہے اے بے وفا! کہا، تو کہا ۔ "تجھے تو ہے سودا"

پتے کی ان سے جو کوئی کہے قیامت ہے ۔ " کہ اس سے نفرت ہے"
حسیں کہا تو سنا، خود نما کہا، تو کہا ۔ بہت بگڑ کے "بجا"

شریر و شوخ ہے وہ داغؔ یہ تو ہے ظاہر ۔ "عبث ہوئے تر بھر"
کسی نے چھیڑ سے تم کو برا کہا تو کہا ۔ "کہ چھیڑ کا ہے مزا"




جس نے ہمارے دل کا نمونہ دکھا دیا
اس آئنے کو خاک میں اس نے ملا دیا

معشوق کواگر دلِ بے مدعا دیا
پوچھے کوئی خدا سے کہ عاشق کو کیا دیا

بے مانگے دردِ عشق و غمِ جاں گزا دیا
سب کچھ ہمارے پاس ہے اللہ کا دیا

ناوک ابھی ہے شست میں صیاد کے مگر
اٹھتے ہی انگلیاں وہ نشانہ اُڑا دیا

رکھتے ہیں ایسے چاند کو تو غیر بھی عزیز
یوسف کو بھائیوں نے کنوئیں میں گرا دیا

ملتا ہے لختِ دل مجھے سرکار عشق سے
اچھی جگہ نصیب نے ٹکڑا لگا دیا

صرفِ بنائے بتکدہ اے شیخ کچھ نہ پوچھ
اکثر اک اینٹ کے لیے مسجد کو ڈھا دیا

ملتے ہیں تیرے چاہنے والے میں تیرے ڈھنگ
جو تجھ پہ مٹ گیا مجھے اس نے مٹا دیا

مضمونِ شوق چھپ نہ سکا اس کو کیا کروں
گو میں نے خط رقیب کے خط میں ملا دیا

دنیا میں اک یہی ہے زیارت گہِ جنوں
خانہ خرابیوں نے مرا گھر بنا دیا

لب خشک ہو رہے ہیں کفِ دست سرخ ہیں
لو سچ کہو کہ قول رقیبوں کو کیا دیا

تیرِ فراق، داغِ تمنا و رشکِ غیر
دل ہو، جگر ہو، کھاتے ہیں سب آپ کا دیا

پیکانِ یار سینے سے کیونکر نکال دوں
یہ ہے خدا کی دین کہ دل دوسرا دیا

تا حشر منکرینِ قیامت نہ مانتے
تجھ کو بنا کے اس کا نمونہ دکھا دیا

سمجھیں گے خوب اس بتِ نا آشنا سے داغؔ
گر ایک بار اور خدا نے ملا دیا




گلے مِلا ہے وہ مستِ شباب برسوں میں
ہُوا ہے دل کو سُرورِ شراب برسوں میں

خدا کرے کہ مزا نتظار کا نہ مِٹے
مِرے سوال کا وہ دیں جواب برسوں میں

بچیں گے حضرتِ زاہد کہیں بغیر پئے
ہمارے ہاتھ لگے ہیں جناب برسوں میں

حیا و شرم تمہاری گواہ ہے اِس کی
ہُوا ہے آج کوئی کامیاب برسوں میں

یہ ضعفِ دل ہی کی خوبی ہے، بلکہ ہے احسان
کبھی ہُوا تو ہُوا اضطراب برسوں میں

شبِ وصال اُسےکیوں نہ شرم آجائے
جب آئینہ سے بھی ٹوٹے حِجاب برسوں میں

ہمارے بعد کچھ ایسا ہُوا مزاج اُن کا
کہ لطف روز ہے سب پر، عتاب برسوں میں

نگاہِ مست سے اُس کی ہُوا یہ حال مِرا
کہ جیسے، پی ہو کسی نے شراب برسوں میں

کہاں ہُوا ہے رُخِ یار قابلِ بوسہ
یہ دن دکھائے گا یہ آٖفتاب برسوں میں

نہ کیوں ہو ناز مجھے اپنے دل پر اے ظالم
کِیا ہے تُو نے جسے انتخاب برسوں میں

وہ بولے داغ کی صُورت کو ہم ترستے تھے
مِلا ہے آج یہ خانہ خراب برسوں میں



آئینہ تصویر کا تیرے نہ لے کر رکھ دیا
بو سے لینے کے لئے کعبے میں پتھر رکھ دیا

ہم نے ان کے سامنے اول تو خنجر رکھ دیا
پھر کلیجا رکھ دیا دل رکھ دیا سر رکھ دیا

زندگی میں پاس سے دم بھر نہ ہوتے تھے جدا
قبر میں تنہا مجھے یاروں نے کیونکر رکھ دیا

دیکھئے اب ٹھوکریں کھاتی ہے کس کس کی نگاہ
روزن دیوار میں ظالم نے پتھر رکھ دیا

زلف خالی ہاتھ خالی کس جگہ ڈھونڈیں اسے
تم نے دل لے کر کہاں اے بندہ پرور رکھ دیا

داغ کی شامت جو آئی اضطراب شوق میں
حال دل کمبخت نے سب ان کے منہ پر رکھ دیا 





کچھ آپ کو بھی قدر ہماری وفا کی ہے
ہم آپ کے ہیں ساری خدائی خدا کی ہے

دھمکی ہمارے واسطے روزِ جزا کی ہے
کوئی نہ کوئی اس میں بھی حکمت خدا کی ہے

حیرت سے دیکھتا ہوں جو میں سوئے آسماں
کہتے ہیں وہ تلاش کسی مہ لقا کی ہے

ایک آنکھ میں حیا تو شرارت ہے ایک میں
یہ شرم ہے غضب کی وہ شوخی بلا کی ہے

بعدِ فنا بھی چین نہیں مشتِ خاک کو
گویا بنی ہوئی مری مٹی ہوا کی ہے

کوئی یقین کیوں نہ کرے اُن کے قول کا
ہر بات میں قسم ہے، قسم بھی خدا کی ہے

اے پیرِ مے کدہ نہیں نشہ شراب میں
کھینچی ہوئی مگر یہ کسی پارسا کی ہے

جب تک ہے دم میں دم یہ نباہیں گے ہر طرح
مٹی خراب عشق میں اہلِ وفا کی ہے

دیکھو نگاہِ ناز کی بے اعتدالیاں
اٹکی ہوئی غرض جو کسی مبتلا کی ہے

وہ وقتِ نزع دیکھ کے مجھ کو یہ کہہ گئے
اچھا ہے یہ تو، کیا اسے حاجت دوا کی ہے

اُس نے نظر چرائی جو ہم سے تو کیا ہوا؟
وہ کیوں ڈرے یہ کیا کوئی چوری خدا کی ہے؟

شوخی سمائی جاتی ہے عہدِ شباب میں
دشوار روک تھام اب ان کو وفا کی ہے

کرتا یہ کارخانۂ دنیا میں کچھ کا کچھ
انسان کو پڑی ہوئی روزِ جزا کی ہے

ایسا نہ ہو کہ اس کی سیاہی کا ہو شریک
بختِ رسا کو حرص تو زلفِ دوتا کی ہے

ظاہر میں اور رنگ ہے باطن میں اور رنگ
خصلت مزاجِ یار میں برگِ حنا کی ہے

دو حصے میری جان کے ہیں تیرے عشق میں
آدھی ادا کی نذر ہے، آدھی قضا کی ہے

مرتا ہوں اور روز ہے مرنے کی آرزو
اس عاشقی میں روح بھی عاشق قضا کی ہے

دل پیچ و تابِ عشق سے کیوں کر نکل سکے
یہ گل چھڑی پڑی ہوئی زلفِ دوتا کی ہے

یہ دیکھتے ہی دیکھتے کس کس سے پھر گئی
گردش نصیب آنکھ بھی تیری بلا کی ہے

اے داغ بزمِ اہلِ سخن گرم ہو گئی
گرمی ترے کلام میں بھی انتہا کی ہے





کچھ آپ کو بھی قدر ہماری وفا کی ہے
ہم آپ کے ہیں ساری خدائی خدا کی ہے

دھمکی ہمارے واسطے روزِ جزا کی ہے
کوئی نہ کوئی اس میں بھی حکمت خدا کی ہے

حیرت سے دیکھتا ہوں جو میں سوئے آسماں
کہتے ہیں وہ تلاش کسی مہ لقا کی ہے

ایک آنکھ میں حیا تو شرارت ہے ایک میں
یہ شرم ہے غضب کی وہ شوخی بلا کی ہے

بعدِ فنا بھی چین نہیں مشتِ خاک کو
گویا بنی ہوئی مری مٹی ہوا کی ہے

کوئی یقین کیوں نہ کرے اُن کے قول کا
ہر بات میں قسم ہے، قسم بھی خدا کی ہے

اے پیرِ مے کدہ نہیں نشہ شراب میں
کھینچی ہوئی مگر یہ کسی پارسا کی ہے

جب تک ہے دم میں دم یہ نباہیں گے ہر طرح
مٹی خراب عشق میں اہلِ وفا کی ہے

دیکھو نگاہِ ناز کی بے اعتدالیاں
اٹکی ہوئی غرض جو کسی مبتلا کی ہے

وہ وقتِ نزع دیکھ کے مجھ کو یہ کہہ گئے
اچھا ہے یہ تو، کیا اسے حاجت دوا کی ہے

اُس نے نظر چرائی جو ہم سے تو کیا ہوا؟
وہ کیوں ڈرے یہ کیا کوئی چوری خدا کی ہے؟

شوخی سمائی جاتی ہے عہدِ شباب میں
دشوار روک تھام اب ان کو وفا کی ہے

کرتا یہ کارخانۂ دنیا میں کچھ کا کچھ
انسان کو پڑی ہوئی روزِ جزا کی ہے

ایسا نہ ہو کہ اس کی سیاہی کا ہو شریک
بختِ رسا کو حرص تو زلفِ دوتا کی ہے

ظاہر میں اور رنگ ہے باطن میں اور رنگ
خصلت مزاجِ یار میں برگِ حنا کی ہے

دو حصے میری جان کے ہیں تیرے عشق میں
آدھی ادا کی نذر ہے، آدھی قضا کی ہے

مرتا ہوں اور روز ہے مرنے کی آرزو
اس عاشقی میں روح بھی عاشق قضا کی ہے

دل پیچ و تابِ عشق سے کیوں کر نکل سکے
یہ گل چھڑی پڑی ہوئی زلفِ دوتا کی ہے

یہ دیکھتے ہی دیکھتے کس کس سے پھر گئی
گردش نصیب آنکھ بھی تیری بلا کی ہے

اے داغ بزمِ اہلِ سخن گرم ہو گئی
گرمی ترے کلام میں بھی انتہا کی ہے




یہ سُنتے ہیں اُن سے یہاں آنے والے
جہنم میں جائیں وہاں جانے والے

ترس کھا ذرا دل کو ترسانے والے
اِدھر دیکھتا جا اُدھر جانے والے

iوہ جب آگ ہوتے ہیں غصہ سے مجھ پر
تو بھڑکاتے ہیں اور چمکانے والے

مرادل، مرے اشک، غصہ تمہارا
نہیں رکتے روکے سے یہ آنے والے

وہ جاگے سحر کو تو لڑتے ہیں مجھ سے
کہ تھے کون تم خواب میں آنے والے

وہ میرا کہا کس طرح مان جاتے
بہت سے ہیں شیطان بہکانے والے

اِدھر آؤ اس بات پر بوسہ لے لوں
مرے سر کی جھوٹی قسم کھانے والے

ہمیں پر اُترتا ہے غصہ تمہارا
ہمیں بے خطا ہیں سزا پانے والے

جو واعظ کے کہنے سے بھی توبہ کرلوں
نہ کوسیں گے کیا مجھ کو میخانے والے

اُٹھائیں گے کیا غیر الفت کے صدمے
ذرا سی مصیبت میں گھبرانے والے

نہیں مانتا ایک کی بھی میرا دل
نئے روز آتے ہیں سمجھانے والے

مجھے کھائے جاتے ہیں اب طعنے دے کر
مرے حال پر تھے جو غم کھانے والے

برستا نہیں مینہ الٰہی کہاں تک
پئیں خون کے گھونٹ میخانے والے

زباں سے تو کہہ کیا ارادہ ہے تیرا
اشاروں اشاروں میں دھمکانے والے

سلامی ہیں اے داغ اُس کے ہی در کے
نہ ہم کعبے والے نہ بت خانے والے





اچھی صورت پہ غضب ٹوٹ کے آنا دل کا
یاد آتا ہے ہمیں ہائے زمانا دل کا

تم بھی منہ چوم لو بے ساختہ پیار آجائے
میں سناؤں جو کبھی دل سےفسانا دل کا

ان حسینوں کا لڑکپن ہی رہے یا اللہ
ہوش آتا ہے تو آتا ہے ستانا دل کا

میری آغوش سے کیا ہی وہ تڑپ کر نکلے
ان کا جانا تھا الہٰی کہ یہ جانا دل کا

حور کی شکل ہو تم نور کے پتلے ہو تم
اور اس پر تمہیں آتا ہے جلانا دل کا

چھوڑ کر اس کو تیری بزم سے کیوں‌کر جاؤں
اک جنازے کا اٹھانا ہے اٹھانا دل کا

بے دلی کا جو کہا حال تو فرماتے ہیں
کر لیا تو نے کہیں اور ٹھکانا دل کا

بعد مدت کے یہ اے “داغ“ سمجھ میں‌آیا
وہی دانا ہے کہا جس نے نہ مانا دل کا




آپ کا اعتبار کون کرے
روز کا انتظار کون کرے

ذکر مہر و وفا تو ہم کرتے
پر تمہیں شرمسار کون کرے

جو ہو اوس چشم مست سے بیخود
پھر اوسے ہوشیار کون کرے

تم تو ہو جان اِک زمانے کی
جان تم پر نثار کون کرے

آفتِ روزگار جب تم ہو
شکوہء روزگار کون کرے

اپنی تسبیح رہنے دے زاہد 
دانہ دانہ شمار کون کرے

ہجر میں زہر کھا کے مر جاؤں
موت کا انتظار کون کرے

آنکھ ہے ترک زلف ہی صیّاد
دیکھیں دل کا شکار کون کرے

غیر نے تم سے بیوفائی کی
یہ چلن اختیار کون کرے

وعدہ کرتے نہیں یہ کہتے ہیں
تجھ کو امیدوار کون کرے

داغ کی شکل دیکھ کر بولے
ایسی صورت کو پیار کون کرے





یوں چلئے راہِ شوق میں جیسے ہوا چلے
ہم بیٹھ بیٹھ کر جو چلےبھی تو کیا چلے

بیٹھے اُداس اُٹھے پریشان خفا چلے
پوچھے تو کوئی آپ سے کیا آئے کیا چلے

آئینگی ٹوٹ ٹوٹکر قاصد پر آفتیں
غافل اِدھر اُدھر بھی ذرا دیکھتا چلے

ہم ساتھ ہو لئے تو کہا اُس نے غیر سے
آتا ہے کون اس سے کہو یہ جُدا چلے

بالیں سے میرے آج وہ یہ کہہ کے اُٹھے گی
اس پر دوا چلے نہ کسی کی دعا چلے

موسیٰ کی طرح راہ میں پوچھی نہ راہ راست
خاموش خضر ساتھ ہمارے چلا چلے

افسانہء رقیب بھی لو بے اثر ہوا
بگڑی جو سچ کہے سے وہاں جھوٹ کیا چلے

رکھا دل و دماغ کو تو روک تھام کر
اس عمر بیوفا پہ مرا زور کیا چلے

بیٹھا ہے اعتکاف میں‌کیا داغ روزہ دار
اے کاش میکدہ کو یہ مردِ خدا چلے
 







ہر سُو دِکھائی دیتے ہیں وہ جلوہ گر مجھے
کیا کیا فریب دیتی ہے میری نظر مجھے

آیا نہ راس نالۂ دل کا اثر مجھے
اب تم ملے تو کچھ نہیں اپنی خبر مجھے

ڈالا ہے بیخودی نے عجب راہ پر مجھے
آنکھیں ہیں اور کچھ نہیں آتا نظر مجھے

کرنا ہے آج حضرتِ ناصح کا سامنا
مل جائے دو گھڑی کو تمہاری نظر مجھے

یکساں ہے حُسن و عشق کی سرمستیوں کا رنگ
اُن کی خبر نہیں ہے نہ اپنی خبر مجھے

میں دُور ہوں تو روحِ سخن مجھ سے کس لیے
تم پاس ہو تو کیوں نہیں آتا نظر مجھے

دل لے کے میرا دیتے ہو داغِؔ جگر مجھے
یہ بات بھولنے کی نہیں عمر بھر مجھے




تم کو چاہا تو خطا کیا ہے بتا دو مجھ کو 
دوسرا کوئی تو اپنا سا دکھا دو مجھ کو 
دل میں سو شکوۂ غم پوچھنے والا ایسا 
کیا کہوں حشر کے دن یہ تو بتا دو مجھ کو 
مجھ کو ملتا ہی نہیں‌ مہر و محبت کا نشان 
تم نے دیکھا ہو کسی میں تو بتا دو مجھ کو 
ہمدموں اُن سے میں‌کہہ جاؤں گا حالت دل کی 
دو گھڑی کے لیئے دیوانہ بنا دو مجھ کو 
بیمروت دل بیتاب سے ہو جاتا ہے 
شیوۂ خاص تم اپنا ہی سکھا دو مجھ کو 
تم بھی راضی ہو تمہاری بھی خوشی ہے کہ نہیں 
جیتے جی داغ یہ کہتا ہے مِٹا دو مجھ کو





0 comments:

Post a Comment