Thursday, November 27, 2014

اُستاد قمر جلالوی


کب میرا نشیمن اہل چمن گلشن میں گوارا کرتے ہیں

غنچے اپنی آوازوں میں بجلی کو پکارا کرتے ہیں



پونچھو نہ عرق رخساروں سے رنگینئ حسن کو بڑھنے دو
سنتے ہیں‌کہ شبنم کے قطرے پھولوں کو نکھارا کرتے ہیں

جاتی ہوئی میت دیکھ کے بھی اللہ تم اٹھ کر آ نہ سکے
دو چار قدم تو دشمن بھی تکلیف گوارا کرتے ہیں

اب نزع کا عالم ہے مجھ پر تم اپنی محبت واپس لو
جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں

تاروں کی بہاروں میں‌بھی قمر تم افسردہ سے رہتے ہو
پھولوں کو تو دیکھو کانٹوں پہ ہنس ہنس کے گزارہ کرتے ہیں




ختم ، شب قصّہ مختصر نہ ہوئی 
شمع گُل ہو گئی، سحر نہ ہوئی

روئی شبنم، جَلا جو گھر میرا 
پھول کی کم، مگر ہنسی نہ ہوئی

حشر میں بھی وہ کیا مِلیں گے ہمیں 
جب مُلاقات عُمر بھر نہ ہوئی

آئینہ دیکھ کے، یہ کیجے شُکر !
آپ کو، آپ کی نظر نہ ہوئی

سب تھے محفِل میں اُنکے محوِ جَمال 
ایک کو، ایک کی خبر نہ ہوئی

سینکڑوں رات کے کئے وعدے
اُن کی رات آج تک قمر نہ ہوئی

قمرجلالوی

0 comments:

Post a Comment