Thursday, November 27, 2014

حسرت موہانی


تحسین ہے لب پر تِرے دشنام نہیں ہے

الزامِ تمنّا کوئی الزام نہیں ہے



خُوبی تِری بے قید ہے خواہش مِری بیحد

اِن دونوں کے آغاز کا انجام نہیں ہے


حسرت موہانی


چُپکے چُپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے


با ہزاراں اضطراب و صد ہزاراں اشتیاق
تجھ سے وہ پہلے پہل دل کا لگانا یاد ہے

بار بار اُٹھنا اُسی جانب نگاہِ شوق کا
اور تِرا غرفےسے وہ آنکھیں لڑانا یاد ہے

تجھ سے کچھ مِلتے ہی وہ بے باک ہو جانا مِرا
اور تِرا دانتوں میں وہ اُنگلی دبانا یاد ہے

کھینچ لینا وہ مِرا پردے کا کونا دفعتاً
اور دوپٹے سے تِرا وہ منھ چھپانا یاد ہے

جان کر سوتا تجھے وہ قصْدِ پا بوسی مِرا
اور تِرا ٹھکرا کے سر، وہ مُسکرانا یاد ہے

تجھ کو تنہا جب کبھِی پانا تو از راہِ لحاظ
حالِ دل باتوں ہی باتوں میں جتانا یاد ہے

جب سَوا میرے تمہارا کوئی دیوانہ نہ تھا
سچ کہو کچھ تم کو بھی وہ کارِخانہ یاد ہے

غیر کی نظروں سے بچ کر سب کی مرضی کے خلاف
وہ تِرا چوری چھپے راتوں کو آنا یاد ہے

آگیا گر وصْل کی شب بھی کہیں ذکرِ فراق
وہ تِرا رو رو کے مجھ کو بھی رُلانا یاد ہے

دوپہر کی دُھوپ میں، میرے بُلانے کے لئے
وہ تِرا کوٹھے پہ ننگے پاؤں آنا یاد ہے

آج تک نظروں میں ہے وہ صُحْبَت و راز و نیاز
اپنا جانا یاد ہے، تیرا بُلانا یاد ہے

مِیٹھی مِیٹھی چھیڑ کی باتیں نرالی پیار کی
ذکردشمن کا وہ باتوں میں اڑانا یاد ہے

دیکھنا مجھ کو جو برگشتہ تو سو سو ناز سے
جب منا لینا تو پھر خود روٹھ جانا یاد ہے

چوری چوری ہم سے تم آ کر مِلے تھے جس جگہ
مُدّتیں گُزریں، پر اب تک وہ ٹھکانا یاد ہے

شوق میں مہندی کے وہ بے دست وپا ہونا ترا
اور مِرا وہ چھیڑنا ، وہ گُدگُدانا یاد ہے

باوجودِ اِدّعائے اِتّقا حسرت مجھے
آج تک عہدِ ہَوَس کا وہ فسانہ یاد ہے








پھر بھي ہے تم کو مسيحائي کا دعويٰ ديکھو
مجھ کو ديکھو، ميرے مرنے کي تمنا ديکھو

جرم ِ نظارہ پہ کون اتني خوشآمد کرتا
اب وہ روٹھے ہيں لو اب اور تماشہ ديکھو

دو ہي دن ميں وہ بات ہے نہ وہ چاہ نہ پيار
ہم نے پہلے ہي يہ تم سے نہ کہا تھا ديکھو

ہم نہ کہتے تھے بناوٹ سے ہے سارا غصہ
ہنس کے لوپھر وہ انھوں نے ہميں ديکھا، ديکھو

مستي ِ حسن سے اپني بھي نہيں تم کو خبر
کيا سنو عرض ميري، حال ميرا کيا ديکھو

گھر سے ہر وقت نکل آتے ہو کھولے ہوئے بال
شام ديکھو نہ ميري جان سويرا ديکھو

خانہ ِ جاں ميں نمودار ہے اک پيکر ِ نور
حسرتو! آؤ، رخ ِ يار کا جلوہ ديکھو

سامنے سب کے مناسب نہيں ہم پر يہ عتاب
سر سے ڈھل جائے نہ غصے ميں دوپٹہ ديکھو

مر مٹے ہم تو کبھي ياد بھي تم نے نہ کيا
اب محبت کا نہ کرنا کبھي دعوٰي ديکھو

دوستو! ترک ِ محبت کي نصيحت ہے فضول
اور نہ مانو تو دل ِ زار کو سمجھا ديکھو

سر کہيں، بال کہيں، ہاتھ کہيں، پاؤں کہيں
اس کا سونا بھي ہے کس شان کا سونا ديکھو

اب وہ شوخي سے يہ کہتے ہيں، ستمگر جو ہيں ہم
دل کسي اور سے کچھ روز کو بہلا ديکھو

ہوس ِ ديد مٹي ہے نہ مٹے گي، حسرتؔ
ديکھنے کيلئے چاہو انہيں جتنا ديکھو





نگاہِ یار جسے آشنائے راز کرے 
وہ اپنی خوبیِ قسمت پہ کیوں نہ ناز کرے


دلوں کو فکرِ دو عالم سے کر دیا آزاد
ترے جنوں کا خدا سلسلہ دراز کرے

خرد کا نام جنوں پڑ گیا، جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے

ترے ستم سے میں خوش ہوں کہ غالباً یوں بھی
مجھے وہ شاملِ اربابِ امتیاز کرے

غمِ جہاں سے جسے ہو فراغ کی خواہش
وہ ان کے دردِ محبت سے ساز باز کرے

امیدوار ہیں ہر سمت عاشقوں کے گروہ
تری نگاہ کو اللہ دل نواز کرے


ترے کرم کا سزاوار تو نہیں حسرت
اب آگے تیری خوشی ہے جو سرفراز کرے





0 comments:

Post a Comment