چڑھے ہوئے تھے جو دریا اتر گئے اب تو
محبتوں کے زمانے گزر گئے اب تو
نہ آ ہٹیں ہیں نہ دستک نہ چاپ قدموں کی
نواح جاں سے صدا کے ہنر گئے اب تو
صبا کے ساتھ گئی بوئے پیرہن اس کی
زمیں کی گود میں گیسو بکھر گئے اب تو
مسافتیں ہیں کڑی دست نا رسائی کی
تمام راستے دل میں ٹھہر گئے اب تو
بسا لے جا کے کہیں تو بھی گوشہ ءحرماں
جو تیرے چاہنے والے تھے مر گئے اب تو
مغنی تبسم
0 comments:
Post a Comment