Thursday, November 27, 2014

سہیل ثاقب




یقیں کریں تو کیجیے، شہادتیں نہ مانگیے
حقیقتیں بدل چکیں، روایتیں نہ مانگیے

کہیں نہیں ہیں معجزے، کرامتیں نہ مانگیے
اب آسمان سے کوئی بشارتیں نہ مانگیے

فضول کھوج کیوں کریں معاملوں میں دین کے
جو کہہ دیا اٹل ہے وہ، وضاحتیں نہ مانگیے

اگر درست فعل ہے تو مصلحت کا دخل کیا
شعور جب ملا ہے تو ہدایتیں نہ مانگیے

خدا کا جو نظام ہے وہ اُس پہ خود ہے کاربند
سو شعبدہ گروں سے پھر کرامتیں نہ مانگیے

جو ہو سکے سمیٹیے گلی گلی محبتیں
جگہ جگہ پڑی ہوئی عداوتیں نہ مانگیے

عبث ہے ڈھونڈنا یہاں گئے دنوں کی الفتیں
پلٹ کے جو نہ آ سکیں وہ ساعتیں نہ مانگیے

وہ حدّتیں تو اب نہیں لہو میں آپ کے حضور
اب اور اپنے واسطے مسافتیں نہ مانگیے

0 comments:

Post a Comment