Wednesday, November 26, 2014

محسن نقوی



یہ دل یہ پاگل دل میرا کیوں بجھ گیا آوارگی

اس دشت میں اک شہر تها وہ کیا ہوا آوارگی



کل شب مجهے بے شکل کی آواز نے چونکا دیا

میں نے کہا تو کون ہے؟ اس نے کہا آوارگی


اک تو کہ صدیوں سے مرے ہمراہ بهی ہمراز بهی

اک میں کہ ترے نام سے نا آشنا آوارگی


اک اجنبی جھونکے نے جب پوچها مرے غم کا سبب

صحرا کی بھیگی ریت پر میں نے لکها آوارگی

یہ درد کی تنہایاں یہ دشت کا ویراں سفر
ہم لوگ تو اکتا گئے اپنی سنا آوارگی

لوگو بهلا اس شہر میں کیسے جیئں گے ہم جہاں
ہو جرم تنہا سوچنا لیکن سزا آوارگی

کل رات تنہا چاند کو دیکها تها میں خواب میں
محسن مجهے راس آئیگی شاید سدا آوارگی

محسن نقوی


یہ دل یہ پاگل دل مرا، کیوں بجھ گیا آوارگی
اس دشت میں اک شہر تھا، وہ کیا ہوا آوارگی

کل شب مجھے بے شکل کی آواز نے چونکا دیا
میں نے کہا تو کون ہے؟ اس نے کہا آوارگی

اک تو کہ صدیوں سے مرے ہمراہ بھی ہمراز بھی
اک میں کہ تیرے نام سے نا آشنا آوارگی

اک اجنبی جھونکے نے جب پوچھا مرے غم کا سبب
صحرا کی بھیگی ریت پر میں نے لکھا ، آوارگی

یہ درد کی تنہائیاں یہ دشت کا ویراں سفر
ہم لوگ تو اُکتا گئے، اپنی سُنا! آوارگی

لوگو بھلا اس شہر میں کیسے جیئں گے ہم جہاں
ہو جرم تنہا سوچنا، لیکن سزا آوارگی

کل رات تنہا چاند کو دیکھا تھا میں نے خواب میں
محسن مجھے راس آئیگی شاید سدا آوارگی






سمندر سارے شراب ھوتے،تو سوچو کتنے فساد ھوتے
گناہ نہ ھوتے ثواب ھوتے،تو سوچو کتنے فساد ھوتے

کسی کے دل میں کیا چھپا ھے،بس خدا ہی جانتا ھے
دل اگر بے نقاب ھوتے، تو سوچو کتنے فساد ھوتے

تھی خاموشی فطرت ھماری،جو چند برس بھی نبھ گئی 
گر ھمارے منہ میں جواب ھوتے،تو سوچو کتنے فساد ھوتے

انکی نظریں نہ جان پائیں اچھا ئیاں ھماری محسن
ھم جو سچ میں خراب ھوتے، تو سوچو کتنے فساد ھوتے







کوئی نئی چوٹ پِھر سے کھاؤ! اداس لوگو
کہا تھا کِس نے، کہ مسکراؤ! اُداس لوگو

گُزر رہی ہیں گلی سے، پھر ماتمی ہوائیں
کِواڑ کھولو ، دئیے بُجھاؤ! اُداس لوگو

جو رات مقتل میں بال کھولے اُتر رہی تھی
وہ رات کیسی رہی ، سناؤ! اُداس لوگو

کہاں تلک، بام و در چراغاں کیے رکھو گے
بِچھڑنے والوں کو، بھول جاؤ! اُداس لوگو

اُجاڑ جنگل ، ڈری فضا، ہانپتی ہوائیں
یہیں کہیں بستیاں بساؤ! اُداس لوگو

یہ کِس نے سہمی ہوئی فضا میں ہمیں پکارا
یہ کِس نے آواز دی، کہ آؤ! اُداس لوگو

یہ جاں گنوانے کی رُت یونہی رائیگاں نہ جائے
سرِ سناں، کوئی سر سجاؤ! اُداس لوگو

اُسی کی باتوں سے ہی طبیعت سنبھل سکے گی
کہیں سے محسن کو ڈھونڈ لاؤ! اُداس لوگو

0 comments:

Post a Comment