Saturday, November 29, 2014

مصطفیٰ زیدی


آج وہ آخری تصویر جلا دی ہم نے
جِس سے اُس شہر کے پُھولوں کی مہک آتی تھی
جس سے بےنور خیالوں پہ چمک آتی تھی
کعبہء رحمتِ اصنام تھا جو مدت سے 
آج اُس قصر کی زنجیر ہِلا دی ہم نے
آگ ،کاغذ کے چمکتے ہوئے سینے پہ بڑھی
خواب کی لہر میں بہتے ہوئے آئے ساحل
مُسکراتے ہوئے ہونٹوں کا سُلگتا ہؤا کرب
سرسراتے ہوئے لمحوں کے دھڑکتے ہوئے دِل
جگمگاتے ہوئے آویزوں کی مبہم فریاد 
دشت ِ غربت میں کسی حجلہ نشیں کا محمل
ایک دِن رُوح کا ہر تار صدا دیتا تھا
کاش ہم بِک کے بھی اس جنسِ گراں کو پالیں
خود بھی کھوجائیں پر اُس رمزِ نِہاں کو پالیں
عقل اس حور کے چہرے کی لکیروں کو اگر 
آمٹاتی تھی تو دل اور بنا دیتا تھا
اور اب یاد کہ اُس آخری پَیکر کا طِلِسْم
قِصّۂ رفتہ بنا زیست کی ماتوں سے ہؤا 
دور اک کھیت پہ بادل کا ذرا سا ٹکڑا 
دھوپ کا ڈھیر ہؤا دھوپ کے ہاتھوں سے ہوا 
اُس کا پیار اُس کا بدن اُس کا مہکتا ہوا رُوپ
آگ کی نذر ہؤا اور اِنہی باتوں سے ہُؤا

0 comments:

Post a Comment