Saturday, November 29, 2014

آنس معین


وہ مِیرے حال پہ رویا بھی، مُسکرایا بھی
عجیب شخص ہے، اپنا بھی ہے، پَرایا بھی
یہ اِنتظار سحر کا تھا یا تُمھارا تھا
دِیا جَلایا بھی مَیں نے، دِیا بجھایا بھی
مَیں چاہتا ہوں ٹھہر جائے چَشمِ دَریا مِیں
لَرزتا عَکس تُمھارا بھی، مِیرا سا یا بھی
بہت مہین تھا پَردہ لرزتی آنکھوں کا
مُجھے دِکھایا بھی تُو نے، مُجھے چھپایا بھی
بیاض بھر بھی گئی اور پھر بھی سادہ ہے
تُمھارے نام کو لکھّا بھی اور مٹایا بھی

٭
وہ کُچھ گہری سوچ مِیں اِیسے ڈُوب گیا ہے
بیٹھے بیٹھے ندی کِنارے ڈُوب گیا ہے
آج کی رَات نہ جانے کِتنی لَمبی ہو گی
آج کا سُورَج شام سے پہلے ڈُوب گیا ہے
وہ جو پیاسا لگتا تھا، سیلاب زَدہ تھا
پانی پانی کہتے کہتے ڈُوب گیا ہے
مِیرے اَپنے اَندر اِیک بھنور تھا جِس مِیں
مِیرا سب کُچھ ساتھ ہی میرے ڈُوب گیا ہے
شور تو یُوں اُٹھّا تھا جیسے اِک طُوفاں ہو
سنّاٹے مِیں جانے کیسے ڈُوب گیا ہے
آخری خواہِش پُوری کرکے جینا کیسا؟
آنِسؔ بھی ساحل تک آکے ڈُوب گیا ہے

0 comments:

Post a Comment