Thursday, November 27, 2014

خاطر غزنوی



گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے
لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے

میں اسے شہرت کہوں یا اپنی رسوائی کہوں
مجھ سے پہلے اس گلی میں میرے افسانے گئے

یوں تو وہ میری رگِ جاں سے بھی تھے نزدیک تر
آنسوؤں کی دھند میں لیکن نہ پہچانے گئے

وحشتیں کچھ اس طرح اپنا مقدر ہو گئیں
ہم جہاں پہنچے، ہمارے ساتھ ویرانے گئے

اب بھی ان یادوں کی خوشبو ذہن میں محفوظ ہے
بارہا ہم جن سے گلزاروں کو مہکانے گئے

کیا قیامت ہے کہ خاطر کشتۂ شب بھی تھے ہم
صبح بھی آئی تو مجرم ہم ہی گردانے گئے

(خاطر غزنوی)

0 comments:

Post a Comment