Wednesday, November 26, 2014

کلیم عاجز


جس جگہ بیٹھنا دکھ درد ہی گانا ہمکو
اور آتا ہی نہیں کوئی فسانہ ہمکو

کل ہر اک زلف سمجھتی رہی شانہ ہمکو

آج آئینہ دکھاتا ہے زمانہ ہمکو
عقل پھرتی ہے لیے خانہ بہ خانہ ہمکو
عشق اب تو ہی بتا کوئی ٹھکانا ہمکو
یہ اسیری ہے سنورنے کا بہانہ ہمکو
طوق آئینہ ہے زنجیر ہے شانہ ہمکو
جادہ غم کے مسافر کا نہ پوچھو احوال
دور سے آے ہیں اور دور ہے جانا ہمکو
اک کانٹا سا کوئی دل میں چبھو دیتا ہے
یاد جب آتا ہے پھولوں کا زمانہ ہمکو
دل تو سو چاک ہے دامن بھی کہیں چاک نہ ہو
اے جنوں دیکھ ! تماشا نہ بنانا ہمکو

کلیم عاجز


دل بیتاب تک ہے، یا جہاں تُم ہو وہاں تک ہے
نہیں معلـُوم میرے درد کی دُنیا کہاں تک ہے

کبھی وابستہ کر دے گی حدُودِ قید و آزادی
یہ زنجیرِ تصوّر جو قفس سے آشیاں تک ہے


ہوئی جب ناامیدی پِھر کہاں یہ لُطف جینے کا
فریبِ زندگانی اعتبارِ دوستاں تک ہے

کبھی اِس مرحلے سے بھی گُذر جانا ہی اچھا ہے
ہراسِ اِمتحاں اۓ دوست وقتِ اِمتحاں تک ہے

کلیم عاؔجِز



جوانی میں تھا کیا اُس شوخ کا عالم، نہ بھُولیں گے
زمانہ بُھول جائے، بھول جائے - ہم نہ بُھولیں گے

دیا ہے تُم نے غم ایسی ادا سے، اِس سلیِقے سے
کہ سب کُچھ بُھول جائیں گے، تُمہارا غم نہ بُھولیں گے

یہی تاریِخ کہتی ہے، یہی حالات کہتے ہیں
عداوت تُم نہ بُھولو گے، مُحبّت ہم نہ بُھولیں گے!

بھلا ہم کیسے بُھولیں گے ترے گیسوےء بَرہم کو؟ 
مگر ہم کو بھی تیرے گیسوےء بَرہم نہ بُھولیں گے!

ترے آنے پہ جو گُزری قیامت، یاد ہے ہم کو
ترا جانا جو بَرپا کر گیا ماتم، نہ بُھولیں گے!

--
کلیِم عاؔجز



متاع غم کہاں اہل ہوس کے سینوں میں
یہ شے ملیگی تو ہم بوریا نشینوں میں
وہ اور ہونگے جنہیں شوق خود نمایی ہے
یہاں تو عمر ہی گزری ہے نکتہ چینوں میں
سمجھ رہے ہیں درياے غم بھی ہے پا یاب
... وہ چند لوگ جو بیٹھے رہے سفینے میں
نثار ہو گئے دارو رساں پی اہل جنوں
یہ بندگان خرد تھے تماش بینوں میں
نہ آ فریب میں رنگین قباؤں کے عاجز
چھری چھپاۓ ہوئے ہیں آستینوں میں


یوں تو ملنے بہت پیرو جواں ملتے ہیں 
جو محبّت سے ملیں ایسے کہاں ملتے ہیں

ڈھونڈنے والوں کو ہم بھی وہیں مل جاینگے 
ان کی زلفوں کے گرفتار جہاں ملتے ہیں

پھول اشکوں کے جو ملتے ہیں مرے دامن میں 
ایسے گل صحن گلستان میں کہاں ملتے ہیں

اب تو یہ حال زمانے کا ہے الله الله 
دوست بھی ملتے ہیں تو دشمن جاں ملتے ہیں

بے مشقّت کبھی آرام نہیں ملتا ہے 
گل بھی ملتے ہیں تو کانٹوں میں نہاں ملتے ہیں

یاد آ جاتی ہے ارباب وطن کی عاجز 
غم کے مارے ہوئے دو چار جہاں ملتے ہیں 


کلیم عاجز


کیوں نہ آمادہ ہو وہ مجھکو مٹانے کے لیے 
میری بربادی میں راحت ہے زمانے کے لیے

ہم کسے ڈھونڈھیں شریک غم بنانے کے لیے 
پھول ہنسنے کو ہیں غنچے مسکرانے کے لیے

وہ تو کہیے ہم نے رکھ لی آشیانے کے لیے 
ورنہ اتنی آگ کافی تھی زمانے کے لیے

بڑھ کے خود کانٹوں پہ رکھ دیں ہم نے اپنی انگلیاں 
اس سراپا ناز کا دامن بچانے کے لیے

کلیم عاجز


اب محفل غزل میں غزل آشنا ہے کون ؟
مانا کہ ایک ہم ہیں مگر دوسرا ہے کون؟

قاتل نے جب پکارا اہل وفا ہے کون ؟
سب لوگ جب خموش رہے بول اٹھا ہے کون ؟

تم اپنی انجمن کا ذرا جائزہ تو لو 
کہنے کو تو چراغ بہت تھے جلا ہے کون ؟

دعویٰ سخن کا سب کو ہے لیکن تمام عمر 
اک دشمن سخن سے مخاطب رہا ہے کون؟

سب دیکھتے جدھر ہیں ادھر کیا ہے کچھ نہیں
ہم دیکھتے جدھر ہیں ادھر دیکھتا ہے کون؟

تصویر میکدہ میری غزلوں میں دیکھیے
سمبھلا رہا ہے کون نشے میں گرا ہے کون؟

میں ایک نقش پا ہوں مگر میں بتاؤنگا
اس راہ سے جو گزرا ہے وہ قافلہ ہے کون؟

سب دوست ایک ایک کرکے مجھے کھودتے گئے 
دشمن بھی دنگ ہے کہ تنہا کھڑا ہے کون؟

گھر بھی ترا گلی بھی تری شہر بھی ترا 
جو چاہے جسکو کہ دے تجھے روکتا ہے کون؟

عاجز یہ کس سے بات کرو ہو غزل میں تم 
پردہ اٹھاؤ ہم بھی تو دیکھیں چھپا ہے کون؟
کلیم عاجز



گونجتا ہے میرا نغمہ فکرو فن 
میکدہ میکدہ انجمن انجمن

فتوے شیخ یا دعوے برہمن 
وہ بھی دیوانہ پن یہ بھی دیوانہ پن

تھک گیا عقل کی بخیہ کاری کا فن 
چاک ہی چاک ہے پیرہن پیرہن

کوئی اہل جنوں کا نہیں ہم سخن 
سب یہاں شیخ ہیں سب یہاں برہمن

لوٹ گیا آتے آتے قریب چمن 
کاروان گل و لالہ و نسترن

اب سبھی ہیں مقامات دار و رسن
دیر ہو یا حرم دشت ہو یا چمن

مجھ سے چاہیں تو اہل خرد مانگ لیں 
ٹھوڈی آشفتگی تھوڑا دیوانہ پن

خون عاجز سے یوں سرخ ہے وہ چھری
جیسے ہانتھوں میں مہندی لگاے دلہن

کلیم عاجز


جس جگہ بیٹھنا دکھ درد ہی گانا ہمکو 
اور آتا ہی نہیں کوئی فسانہ ہمکو

کل ہر اک زلف سمجھتی رہی شانہ ہمکو 
آج آئینہ دکھاتا ہے زمانہ ہمکو

عقل پھرتی ہے لیے خانہ بہ خانہ ہمکو
عشق اب تو ہی بتا کوئی ٹھکانا ہمکو

یہ اسیری ہے سنورنے کا بہانہ ہمکو 
طوق آئینہ ہے زنجیر ہے شانہ ہمکو

جادہ غم کے مسافر کا نہ پوچھو احوال 
دور سے آے ہیں اور دور ہے جانا ہمکو

اک کانٹا سا کوئی دل میں چبھو دیتا ہے 
یاد جب آتا ہے پھولوں کا زمانہ ہمکو

دل تو سو چاک ہے دامن بھی کہیں چاک نہ ہو 
اے جنوں دیکھ ! تماشا نہ بنانا ہمکو 


کلیم عاجز


جب سے جوانی آئی انکی ، آ بیٹھے بہکانے لوگ
کل تک اپنے لوگ ہمیں تھے ، آج ہیں ہم بیگانے لوگ

اپنا لہو بھر کر لوگوں کو ، بانٹ گئے پیمانے لوگ 
دنیا بھر کو یاد رہینگے ، ہم جیسے دیوانے لوگ

اب وہ کہاں اخلاص کی شمعیں ، اب وہ کہاں پروانے لوگ 
بیگانی بیگانی محفل ، انجانے انجانے لوگ

کس پر کیا بیت گیئ ہے ، کب سمجھے کب جانے لوگ 
گھر بیٹھے سر دھن لیتے ہیں ، سن سن کر افسانے لوگ

جرم جنوں ثابت کرنے کو ، موسم کی کچھ شرط نہیں 
جب چاہیں تب آ جاتے ہیں ، زنجیریں پہنانے لوگ

کوئی دیوانہ کہتا ہے ، کوئی شاعر کہتا ہے 
اپنی اپنی بول رہے ہیں ہم کو بے پہچانے لوگ 
کلیم عاجز


اب تو اشکوں کی جھڑی دن رات ہے 
ہم کو ہر موسم بھری برسات ہے

روز اک تحفہ ہے اک سوغات ہے 
اے غم دوراں تری کیا بات ہے

زلف جاناں کی سیاہی مات ہے 
الله الله کیا اندھیری رات ہے

انکی آنکھوں کا اشارہ ہی نہیں 
ورنہ مر جانا بھی کوئی بات ہے؟

کچھ نہیں رکھتے محبّت کے سوا 
ہم غریبوں کی یہی اوقات ہے

جھومتے ہیں سب مرے اشعار پر 
میرے دل میں سب کے دل کی بات ہے 
کلیم عاجز



نہیں کوئی درد آشناۓ دل من 
بس اپنے ہی آنسو بس اپنا ہی دامن

مبارک تمہیں سیر گلزار و گلشن
فقیروں کا تو کوئی گھر ہے نہ آنگن

کوئی اس طرح بھی بدلتا ہے چتون
تمہیں دوست تھے کل تمہیں آج دشمن

گنہگار ہم تم بڑے پاک دامن ؟
ملاؤ تو آنکھیں اٹھاؤ تو گردن

حسیں کیا ہوئے تم قیامت ہوئے ہو 
جفا ڈیوڑھی ڈیوڑھی ستم آنگن آنگن

کلیم عاجز



دیکھیں اب کے امتحان میں سرخ رو ہوتا ہے کون 
وہ بھی کچھ سوچے ہوئے ہیں ہم بھی کچھ ٹھانے ہوئے

تو نے پھر شاید پکارا ہے فراز دار سے 
ہے جنوں ہم ہیں تیری آواز پہچانے ہوئے

بوالہوس محلوں میں ہیں بے خواب اور تیرے فقیر 
سو رہے ہیں چادر آسودگی تانے ہوئے

فصل گل عاجز قفس میں آتے ہی آتے رہی 
ہم یہاں بیٹھے تھے کیا کیا منّتیں مانے ہوئے 






رنگ آنسوؤں کا میرے جِس دِن سے شِہابی ہے
صُبح اُن کی بَسَنتی ہے، شام اُن کی گُلابی ہے

میخانے سے باہر تک جھنکار چلی آیٔ
یہ کِس کا سبو ٹوٹا، یہ کون شرابی ہے؟

بے کیفی صہبا میں ساقی کی خطا نِکلی
ہم نے تو یہ سمجھا تھا موسم کی خرابی ہے

کیفیتِ غم پوچھو ہم اہلِ طبیعت سے 
مٔے ہوگی اُسی گھر میں جِس گھر میں گلابی ہے

آسان ہے اب کِتنی رسم و رہِ میخانہ
دو گھونٹ بھی پی لی ہے جِس نے وہ شرابی ہے

اُن کے مُتعلق جو باتیں ہیں مرے دِل میں
چُپ رہئے تو بیجا ہے، کہئے تو خرابی ہے

کلیم عؔاجِز



0 comments:

Post a Comment