Thursday, November 27, 2014

سکندر حیات بابا



خود اپنے آپ میں کتنا تضاد رکھتا ہوں
مرے ضمیر سے پوچھو، میں یاد رکھتا ہوں

کسی کو پیار جو اس سے ہو زہر لگتا ہے
میں اس کے پیار میں اتنا عناد رکھتا ہوں

رہے وہ شاد یہ دل اسلیے جلاتا ہوں
پھر اسکی آگ میں دل کو بھی شاد رکھتا ہوں

خوشی کا راز ہے مضمر ملا مجھے غم میں
خوشی کے واسطے غم خود پہ لاد رکھتا ہوں

میں نفرتوں کو جگہ پیار کی نہیں دیتا
میں اپنے آپ میں خود ہی فساد رکھتا ہوں

مجھے تو چھیڑ کے ہوگا ضمیر شرمندہ
تیرے خلاف میں اتنا مواد رکھتا ہوں

حقیقی زیست سکندر انا کا مرجانا
میں دین عشق میں یہ اعتقاد رکھتا ہوں

سکندر حیات بابا

0 comments:

Post a Comment