Thursday, November 27, 2014

مجید امجد


کوئی تو مجھ کو بتائے یہ راہگیر ہے کون

حسین انکھڑیوں میں حسن شش جہات لئے
دمِ سحر ہے سر رہگزار محوِ سفر
سیاہ گیسوؤں میں بے کسی کی رات لئے
چلی ہے کونسی دنیائے بے نشاں کی طرف
ہزار گردشِ افلاک سات سات لئے
جبینِ ناز پہ درد مسافری کا ہجوم
پلک پلک پہ غبارِ رہِ حیات لئے
اداس چہرے پہ اک التجا کی گویائی
خموش لب پہ کوئی بے صدا سی بات لئے
خزاں کی سلطنتوں میں ہے ایک پھول رواں
ہر ایک خار سے امید التفات لئے
لگی ہے اس کو لگن جانے کس زمانے کی
بھٹک گئی نہ ہو ٹھوکر کوئی زمانے کی

مجید امجد



دل سے ہر گزُری بات گزُری ہے 
کِس قیامت کی، رات گزُری ہے 

چاندنی، ۔۔ نیم وا دریچہ، سکوت 
آنکھوں آنکھوں میں رات گزُری ہے 

ہائے وہ لوگ، خُوب صُورت لوگ
جن کی دُھن میں حیات گزُری ہے 


کسی بھٹکے ہوئے خیال کی موج 
کتنی یادوں کے سات۔ گزُری ہے

تمتماتا ۔۔ہے ۔۔ چہرۂ ۔۔ ایّام !
دل پہ کیا واردات گزُری ہے

پھر کوئی آس لڑکھڑائی ہے
کہ، نسیمِ حیات گزُری ہے

بُجھتے جاتے ہیں دُکھتی پلکوں پہ دِیپ
نیند آئی ہے، رات گزُری ہے 






جب اک چراغِ راہگزار کی کرن پڑے - مجید امجد
جب اک چراغِ راہگزار کی کرن پڑے
ہونٹوں کی لو لطیف حجابوں سے چھن پڑے


شاخِ ابد سے جھڑتے زمانوں کا روپ ہیں
یہ لوگ جن کے رخ پہ گمانِ چمن پڑے

تنہا گلی، ترے مرے قدموں کی چاپ، رات
ہر سو وہ خامشی کہ نہ تابِ سخن پڑے

یہ کون سے دیار کی ٹھنڈی ہوا چلی
ہر موجہء خیال پہ صد ہا شکن پڑے

جب دل کی سل پہ بج اٹھے نیندوں کا آبشار
نادیدہ پائلوں کی جھنک جھن جھنن پڑے

یہ چاندنی یہ بھولی ہوئی چاہتوں کا دیس
گزروں تو رشحہء عطرِ سمن پڑے

یہ کون ہے لبوں میں رسیلی رتیں گھلیں
پلکوں کی اوٹ نیند میں گلگوں گگن پڑے

اک پل بھی کوئے دل میں نہ ٹھہرا وہ رہ نورد
اب جس کے نقشِ پا ہیں چمن در چمن پڑے

اک جست اس طرف بھی غزالِ زمانہ رقص
رہ تیری دیکھتے ہیں خطا و ختن پڑے

جب انجمن تموجِ صد گفتگو میں ہو
میری طرف بھی اک نگہِ کم سخن پڑے

صحرائے زندگی میں جدھر بھی قدم اٹھیں
رستے میں ایک آرزوؤں کا چمن پڑے

اس جلتی دھوپ میں یہ گھنے سایہ دار پیڑ
میں اپنی زندگی انھیں دے دوں جو بن پڑے

اے شاطرِ ازل ترے ہاتھوں کو چوم لوں
قرعے میں میرے نام جو دیوانہ پن پڑے

اے صبحِ دیر خیز انھیں آواز دے جو ہیں
اک شام زود خواب کے سکھ میں مگن پڑے

اک تم کہ مرگ دل کے مسائل میں جی گئے
اک ہم کہ ہیں بہ کشمکشِ جان و تن پڑے

امجد طریق مے میں ہے یہ احتیاط شرط
اک داغ بھی کہیں نہ سرِ پیرہن پڑے

0 comments:

Post a Comment