Thursday, November 27, 2014

رؤف خلش


سلسلے یہ کیسے ہیں ٹوٹ کر نہیں ملتے
جو بچھڑ گئے لمحے ، عمر بھر نہیں ملتے

شور کرتے رہتے ہیں ، جسم و جاں کے سناٹے
جب طویل راہوں میں ، ہم سفر نہیں ملتے

دھوپ کی تمازت سے ، جو بچاؤ کر پاتے
سورجوں کے شہروں میں ، وہ شجر نہیں ملتے

چاہتوں بھرے کمرے ، دل کھلے ، کھلا آنگن
اب تو ڈھونڈنے پر بھی، ایسے گھر نہیں ملتے

سب نے ہر ضرورت سے ، کر رکھا ہے سمجھوتا
لوگ ملتے رہتے ہیں ، دل مگر نہیں ملتے

وقت نے تو بستی کی ، شکل ہی بدل دی ہے
جن پہ رونقیں تھیں وہ ، بام و در نہیں ملتے

اپنے نفع و نقصان کا ، سب حساب رکھتے ہیں
ہم سے ملنے والے بھی ، بےخبر نہیں ملتے

ان دنوں خلش اکثر ، منظروں کے وہ تیور
اجنبی دیاروں کی ، خاک پر نہیں ملتے

0 comments:

Post a Comment