سلسلے یہ کیسے ہیں ٹوٹ کر نہیں ملتے
جو بچھڑ گئے لمحے ، عمر بھر نہیں ملتے
شور کرتے رہتے ہیں ، جسم و جاں کے سناٹے
جب طویل راہوں میں ، ہم سفر نہیں ملتے
دھوپ کی تمازت سے ، جو بچاؤ کر پاتے
سورجوں کے شہروں میں ، وہ شجر نہیں ملتے
چاہتوں بھرے کمرے ، دل کھلے ، کھلا آنگن
اب تو ڈھونڈنے پر بھی، ایسے گھر نہیں ملتے
سب نے ہر ضرورت سے ، کر رکھا ہے سمجھوتا
لوگ ملتے رہتے ہیں ، دل مگر نہیں ملتے
وقت نے تو بستی کی ، شکل ہی بدل دی ہے
جن پہ رونقیں تھیں وہ ، بام و در نہیں ملتے
اپنے نفع و نقصان کا ، سب حساب رکھتے ہیں
ہم سے ملنے والے بھی ، بےخبر نہیں ملتے
ان دنوں خلش اکثر ، منظروں کے وہ تیور
اجنبی دیاروں کی ، خاک پر نہیں ملتے
0 comments:
Post a Comment