Thursday, November 13, 2014

میر تقی میر



شعر کے پردے میں میں نے غم سنایا ہے بہت

مرثیے نے دل کے میرے بھی رُلایا ہے بہت



بے سبب آتا نہیں اب دم بہ دم عاشق کو غش
درد کھینچا ہے نہایت رنج اٹھایا ہے بہت



وادی و کہسار میں روتا ہوں ڈاڑھیں مار مار
دلبران شہر نے مجھ کو ستایا ہے بہت



وا نہیں ہوتا کسو سے دل گرفتہ عشق کا
ظاہراً غمگیں اسے رہنا خوش آیا ہے بہت

میرؔ گم گشتہ کا ملنا اتفاقی امر ہے
جب کبھو پایا ہے خواہش مند پایا ہے بہت


میر تقی میر



میری پر شس پہ تری طبع اگر آوے گی ،
صورت حال تجھے آپ ہی نظر آوے گی ،
.
محو اس کا نہیں ایسا کہ جو جیتے گا شتاب ،
اس کے بیخود کی بہت دیر خبر آوے گی ،
.
کتنے پشارم _ چمن کو ہیں سو دل میں ہے گرہ ،
کسو دن ہم تئیں بھی باد سحر آوے گی ،
.
ابر مت گور غریباں پہ برس غافل آہ ،
ان دل آزردوں کے جی میں بھی لہر آوے گی ،
.
میر تقی میر 



یہ ، میر ، ستم کشتہ کسو وقت جواں تھا ،
انداز سخن کا سبب شور و فغاں تھا ،
.
جادو کی بڑی پرچہ ابیات تھا اس کا ،
منہ تکتے غزل پڑ ھتجب سحر بیاں تھا ،
.
افسرہ نہ تھا ایسا کہ جوں آب زدہ خاک ،
ندی تھا ، بلا تھا ، کوئی آشوب جہاں تھا ،
.
کس مرتبہ تھی حست دیدار مرے ساتھ ،
جو پھول مری خاک سے نکلا نگراں تھا ،
.
مجنوں کو عبث دعوے وحشت ہے مجھے سے ،
جس سن کے جنوں مجھ کو ہوا تھا وہ کہاں تھا ،
.
غافل تھے ہم احوال دل خستہ سے اپنے ،
وہ کنج اسی کنج خرابی میں نہاں تھا ،
.
کس زور سے فرہاد نے خارا شکنی کی ،
ہر چند کہ وہ بیکس و بیتاب و تاں تھا ،
.
.
.
گو میر ، جہاں میں کنھوں نے تجھ کو جانا ،
موجود نہ تھا تو تو کہاں نام و نشاں تھا ،
.
میر تقی میر .،.



0 comments:

Post a Comment