Thursday, November 27, 2014

اظہر ناظر



شمع زیست کو دونوں سروں سے جلا رہا ہوں میں

کسی قدر اضافی روشنی پھیلا رہا ہوں میں
تجھ سے ملے رنج و راحت تجھی کو لوٹا کر
یوں زندگی اب تیرا احسان چکا رہا ہوں میں
یوں اپنے اندر کے سناٹوں سے مانوس رہا
انسانوں کی بھیڑ میں بھی تنہا رہا ہوں میں
کسی ابر تشنہ لب سا کھل کے میں برس نہ سکا
جیون بھر پیاس کا اک صحرا رہا ہوں میں
مہ و سال کے کھنکتے سکے میں سنبھال نہیں پاتا
عمروں کی ریزگاری کو بے رحمی سے لٹا رہا ہوں میں
کیا کچھ نہ کیا تیرے واسطے اے کار محبت
انگاروں پہ برہنہ پا بھی چلتا رہا ہوں میں
چاند کو چھونے کی اب تو ضد چھوڑ بھی دے
اے دل ناظر ترے ناز کب سے اٹھا رہا ہوں میں




دفتر سے واپسی پر
سگنل کی سرخ بتی پہ
موتیے کے ہار ایک لڑی میں پروۓ
اک پھول فروش بچہ جب کبھی
مری گاڑی کے ساتھ آن کھڑا ہوتا ہے
میں اس سے موتیے کے چند ہار خرید لیتا ہوں
اور پھر انہیں بڑ ے اہتمام سے
بیک ویو مرر پہ ڈال دیتا ہوں
موتیے کی سوندھی خوشبو
مجھ کو تری یاد دلاتی ہے
اک خواب نگر میں کھینچ لاتی ہے
ہاں تم کو موتیے کے گجرے پسند تھے
گھر پہنچ کر تم کو وہاں نہ پا کر
میں کسقدر مخموم سا ہو جاتا ہوں
بستر پہ دراز تمہیں سوچتا ہوں
اور بے خبری کے کسی پل میں
نیند کی آغوش میں چلا جاتا ہوں
اور دوسرے روز تک موتیے کے وہ ہار
بیک ویو مرر پہ دھوپ کی تمازت سے
مرے ہجر کی حدت سے جھلسے ارمانوں سے
پوری طرح جل مرجھا ۓ مرے منتظر ہوتے ہیں
تاوقتیکہ دوسری شام میں تازہ پھولوں کو
ایک امید نو کی طرح پھر سے گاڑی کے
بیک ویو مرر پہ ڈال کر کچھ پل کو ہی
پھر سے اکبار تری یادوں سے مہک اٹھتا ہوں
ذرا دیر کو ہی سہی , یوں میں جی اٹھتا ہوں.

اظہر ناظر

0 comments:

Post a Comment