Wednesday, November 26, 2014

امجد اسلام امجد


کیا کیا ہمارے خواب تھے ، جانے کہاں پہ کھو گئے
تم بھی کسی کے ساتھ ہو ، ہم بھی کسی کے ہو گئے

جانے وہ کیوں تھے ، کون تھے ؟ آئے تھے کس لیے یہاں
وہ جو فشار وقت میں ، بوجھ سا ایک دھو گئے

اس کی نظر نے یوں کیا گرد ملال جان کو صاف
اَبْر برس کے جس طرح ، سارے چمن کو دھو گئے


کٹنے سے اور بڑھتی ہے اٹھے ہوئے سرو کی فصیل

اپنے لہو سے اہل دل ، بیج یہ کیسے بو گئے

جن کے بخیر اک پل ، جینا بھی مُحال تھا
شکلیں بھی ان کی بجھ گئیں ، نام بھی ان کے کھو گئے

آنکھوں میں بھر کے رت جگے ، رستوں کو دے کے دوریاں
امجد وہ اپنے ہمسفر ، کیسے مزے سے سو گئے.

امجد اسلام امجد





کوئی بھی لمحہ کبھی لوٹ کر نہیں آیا

وہ شخص ایسا گیا پھر نظر نہیں آیا

وفا کے دشت میں رستہ نہیں ملا کوئی
سوائے گرد سفرہم سفر نہیں آیا

پلٹ کے آنے لگے شام کے پرندے بھی
ہمارا صبح کا بھولا مگر نہیں آیا

کِسی چراغ نے پوچھی نہیں خبر میری
کوئی بھی پھول مِرے نام پر نہیں آیا

چلو کہ کوچئہ قاتل سے ہم ہی ہو آئیں
کہ نخلِ دراپہ کب سے ثمر نہیں آیا

خدا کے خوف سے دل لرزتے رہتے ہیں
انھیں کبھی بھی زمانے سے ڈر نہیں آیا

کدھر کو جاتے ہیں رستے، یہ راز کیسے کھلے
جہاں میں کوئی بھی بارِدگر نہیں آیا

یہ کیسی بات کہی شام کے ستارے نے
کہ چین دل کو مِرے رات بھر نہیں آیا

ہمیں یقین ہے امجد نہیں وہ وعدہ خلاف
پہ عمر کیسے کٹے گی، اگر نہیں آیا.

امجد اسلام امجد






کہاں آکے رکنے تھے راستے ، کہاں موڑ تھا ، اسے بھول جا

وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ ، جو نہیں ملا اسے بھول جا

وہ ترے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں
دلِ بے خبر مری بات سن اسے بھول جا ، اسے بھول جا

میں تو گم تھا تیرے ہی دھیان میں ، ترِی آس ، تیرے گمان میں
صبا کہہ گئی مرے کان میں ، میرے ساتھ آ ، اسے بھول جا

کسی آنکھ میں نہیں اشکِ غم ، ترے بعد کچھ بھی نہیں ہے کم
تجھے زندگی نے بھلا دیا ، تو بھی مسکرا ، اسے بھول جا

کہیں چاکِ جاں کا رفو نہیں ، کسی آستیں پہ لہو نہیں
کہ شہیدِ راہِ ملال کا نہیں خوں بہا ، اسے بھول جا

کیوں اٹا ہوا ہے غبار میں ، غمِ زندگی کے فشار میں
وہ جو درد تھا ترے بخت میں ، سو وہ ہو گیا ، اسے بھول جا

نہ وہ آنکھ ہی تری آنکھ تھی ، ، نہ وہ خواب ہی ترا خواب تھا
دلِ منتظر تو یہ کس لئے ترا جاگنا ، اسے بھول جا

یہ جو رات دن کا ہے کھیل سا ، اسے دیکھ ، اس پہ یقیں نہ کر
نہیں عکس کوئی بھی مستقل سرِ آئنہ ، اسے بھول جا

جو بساطِ جاں ہی الٹ گیا ، وہ جو راستے سے پلٹ گیا
اسے روکنے سے حصول کیا ، اسے مت بلا ، اسے بھول جا

تو یہ کس لئے شبِ ہجر کے اسے ہر ستارے میں دیکھنا
وہ فلک کہ جس پہ ملے تھے ہم ، کوئی اور تھا ، اسے بھول جا

تجھے چاند بن کے ملا تھا جو ، ترے ساحلوں پہ کھلا تھا جو
وہ تھا اک دریا وصال کا ، سو اتر گیا اسے بھول جا.

امجد اسلام امجد







ویرانۂ وجود میں چلنا پڑا ہمیں

اپنے لہو کی آگ میں جلنا پڑا ہمیں

منزل بہت ہی دُور تھی، رستے تھے اجنبی
تاروں کے ساتھ ساتھ نکلنا پڑا ہمیں

سایا مثال آئے تھے اُس کی گلی میں ہم
ڈھلنے لگی جو رات تو ڈھلنا پڑا ہمیں

اپنے کہے سے وہ جو ہُوا منحرف ، تو پھر
اپنا لکھا ہُوا بھی بدلنا پڑا ہمیں

محرابِ جاں کی شمعیں بچانے کے واسطے
ہر رات کنجِ غم میں پگھلنا پڑا ہمیں

ہم چڑھتے سُورجوں کو سلامی نہ دے سکے
سَو دوپہر کی دُھوپ میں جلنا پڑا ہمیں

تھا ابتدا سے علم کہ ہے راستہ غلط
اور قافلے کے ساتھ بھی چلنا پڑا ہمیں

شانے پہ اِس ادا سے رکھا پھر کسی نے ہاتھ
دل مانتا نہ تھا پہ بہلنا پڑا ہمیں

امجد کسی طرف بھی سہارا نہ تھا کوئی
جب بھی گرے تو خود ہی سنبھلنا پڑا ہمیں.

امجد اسلام امجد






آنکھوں کا رنگ ، بات کا لہجہ بدل گیا

وہ شخص ایک شام میں کتنا بدل گیا

جب اپنے اپنے حال پہ ہم تم نہ رہ سکے
تو کیا ہوا جو ہم سے زمانہ بدل گیا

کوئی بھی چیز اپنی جگہ پر نہیں رہی
جاتے ہی ایک شخص کے، کیا کیا بدل گیا

کہنے کو ایک صحن میں دیوار ہی بنی
گھر کی فضا، مکان کا نقشہ بدل گیا

شاید وفا کے کھیل سے اکتا گیا تھا وہ
منزل کے پاس آ کے جو رستہ بدل گیا

قائم کسی بھی حال پہ دنیا نہیں رہی
تعبیر کھو گئی، کبھی سپنا بدل گیا

اپنی گلی میں اپنا ہی گھرڈھونڈتے ہیں لوگ
امجد یہ کون شہر کا نقشہ بدل گیا.

امجد اسلام امجد









یہ جو زخم ، زخم سے خواب ہیں، یہ جو رات ہے میرے چار سو
مرے بےخبر ، مرے بےنشاں ، میں تھا کس نگر ، تو رھا کہاں
کہ زماں ، مکاں کی یہ وسعتیں ، تجھے دیکھنے کو ترس گئیں
وہ مرے نصیب کی بارشیں ، کسی اور چھت پر برس گئیں
تو میرے سفر کا شریک ہے ، نہیں ھمسفر ، نہیں ھمسفر !
میرے چارہ گر ، میرے چارہ گر ، میرے درد کی تجھے کیا خبر

وہ جو ھاتھ بھر کا تھا فاصلہ ، کئی موسموں میں بدل گیا
اسے ناپتے ، اسے کاٹتے ، میرا سارا وقت نکل گیا
نہیں جس پہ نشان پا ، میرے سامنے ہے وہ راہگزر

میرے چارہ گر ، میرے چارہ گر ، میرے درد کی تجھے کیا خبر
یہ جو زخم ، زخم سے خواب ہیں، یہ جو رات ہے میرے چارسو

یہ جو بےبسی کا ہے قافلہ ، سبھی راستوں میں رکا ہوا
نہیں کچھ بھی تجھ سے چھپا ہوا ،اسے حکم دے ، یہ کرے سفر
میرے چارہ گر ، میرے چارہ گر ، میرے درد کی تجھے کیا خبر.

امجد اسلام امجد






زیرِ لب یہ جو تبسّم کا دِیا رکھا ہے

ہے کوئی بات جسے تم نے چھپا رکھا ہے

چند بے ربط سے صفحوں میں، کتابِ جاں کے
اِک نشانی کی طرح عہدِ وفا رکھا ہے

ایک ہی شکل نظر آتی ہے، جاگے، سوئے
تم نے جادُو سا کوئی مجھ پہ چلا رکھا ہے

یہ جو اِک خواب ہے آنکھوں میں نہفتہ، مت پوچھ
کس طرح ہم نے زمانے سے بچا رکھا ہے!

کیسے خوشبو کو بِکھر جانے سے روکے کوئی!
رزقِ غنچہ اسی گٹھڑی میں بندھا رکھا ہے

کب سے احباب جِسے حلقہ کیے بیٹھے تھے
وہ چراغ آج سرِ راہِ ہوا، رکھا ہے

دن میں سائے کی طرح ساتھ رہا، لشکرِ غم
رات نے اور ہی طوفان اٹھا رکھا ہے

یاد بھی آتا نہیں اب کہ گِلے تھے کیا کیا
سب کو اُس آنکھ نے باتوں میں لگا رکھا ہے

دل میں خوشبو کی طرح پھرتی ہیں یادیں، امجد
ہم نے اس دشت کو گلزار بنا رکھا ہے.

امجد اسلام امجد









لبوں پے رکتی ، دلوں میں سما نہیں سکتی

وہ اک بات جو لفظوں میں آ نہیں سکتی

جو دل میں ہو نظر غم تو اشک پانی ہے
کہ آگ خاک کو کندن بنا نہیں سکتی

یقین ، گمان سے باہر تو ہو نہیں سکتا
نظر خیال سے آگے تو جا نہیں سکتی

دلوں کی رمز فقط اہل دل جانتے ہیں
تیری سمجھ میں میری بات آ نہیں سکتی

یہ سوز عشق تو گونگے کا خواب ہے جیسے
میری زبان میری حالت بتا نہیں سکتی

سمٹ رہی ہے میرے بازوؤں کے حلقے میں
حیا کے بوجھ سے پلکیں اٹھا نہیں سکتی

جو کہہ رہا ہے سلگتا ہوا بدن اس کا
بتا بھی پاتی نہیں ، اور چھپا نہیں سکتی

اک ایسے ہجر کی آتَش ہے میرے دل میں جیسے
کسی وصال کی بارش بجھا نہیں سکتی

تو جو بھی ہونا ہے ، امجد یہیں پے ہونا ہے
زمین مدار سے باہر تو جا نہیں سکتی.

امجد اسلام امجد






ایک آزار ہوئی جاتی ہے شہرت ہم کو

خود سے ملنے کی بھی ملتی نہیں فرصت ہم کو

روشنی کا یہ مسافر ہے رہِ جاں کا نہیں
اپنے سائے سے بھی ہونے لگی وحشت ہم کو

آنکھ اب کس سے تحیر کا تماشا مانگے
اپنے ہونے پہ بھی ہوتی نہیں حیرت ہم کو

اب کے اُمید کے شعلے سے بھی آنکھیں نہ جلیں
جانے کس موڑ پہ لے آئی محبت ہم کو

کون سی رُت ہے زمانے ، ہمیں کیا معلوم
اپنے دامن میں لئے پھرتی ہے حسرت ہم کو

زخم یہ وصل کے مرہم سے بھی شاید نہ بھرے
ہجر میں ایسی ملی اب کے مسافت ہم کو

داغِ عصیاں تو کسی طور نہ چھپتے امجد
ڈھانپ لیتی نہ اگر چادرِ رحمت ہم کو.

امجد اسلام امجد




دنیا کا کچھ برا بھی تماشا نہیں رہا
دل چاہتا تھا جس طرح ویسا نہیں رہا
تم سے ملے بھی ہم تو جدائی کے موڑ پر
کشتی ہوئی نصیب تو دریا نہیں رہا
کہتے تھے ایک پل نہ جیئیں گے ترے بغیر
ہم دونوں رہ گئے ہیں وہ وعدہ نہیں رہا
کاٹے ہیں اس طرح سے ترے بغیر روز و شب
میں سانس لے رہا تھا پر زندہ نہیں رہا
آنکھیں بھی دیکھ دیکھ کے خواب آ گئی ہیں تنگ
دل میں بھی اب وہ شوق، وہ لپکا نہیں رہا
کیسے ملائیں آنکھ کسی آئنے سے ہم

امجد ہمارے پاس تو چہرہ نہیں رہا





چہرے پہ میرے زلف کو پھیلاؤ کسی دن
کیا روز گرجتے ہو برس جاؤ کسی دن

رازوں کی طرح اترو میرے دل میں کسی شب
دستک پہ میرے ہاتھ کی کھل جاؤ کسی دن

پیڑوں کی طرح حسن کی بارش میں نہالوں
بادل کی طرح جھوم کے گھِر آؤ کسی دن

خوشبو کی طرح گزرو میرے دل کی گلی سے
پھولوں کی طرح مجھ پہ بکھر جاؤ کسی دن

پھر ہاتھ کو خیرات ملے بندِ قبا کی
پھر لطفِ شبِ وصل کو دہراؤ کسی دن

گزریں جو میرے گھر سے تو رک جائیں ستارے
اس طرح میری رات کو چمکاؤ کسی دن

میں اپنی ہر اک سانس اسی رات کو دے دوں
سر رکھ کے میرے سینے پہ سو جاؤ کسی دن

امجد اسلام




اک نام کی اُڑتی خوشبو میں اک خواب سفر میں رہتا ہے
اک بستی آنکھیں ملتی ہے اک شہر نظر میں رہتا ہے



کیا اہلِ ہنر، کیا اہلِ شرف سب ٹکڑے ردی کاغذ کے
اس دور میں ہے وہ شخص بڑا جو روز خبر میں رہتا ہے

پانی میں روز بہاتا ہے اک شخص دئیے اُمیدوں کے
اور اگلے دن تک پھر ان کے ہمراہ بھنور میں رہتا ہے

اک خوابِ ہُنر کی آہٹ سے کیا آگ لہو میں جلتی ہے
کیا لہر سی دل میں چلتی ہے! کیا نشہ سر میں رہتا ہے

جو پیڑ پہ لکھی جاتی ہے جو گیلی ریت سے بنتا ہے
کون اُس تحریر کا وارث ہے !کون ایسے گھر میں رہتا ہے!

ہر شام سُلگتی آنکھوں کو دیوار میں چُن کر جاتی ہے
ہر خواب، شکستہ ہونے تک زنجیرِ سحر میں رہتا ہے

- امجد اسلام امجد



دل کے آتشدان میں شب بھر
کیسے کیسے غم جلتے ھیں!
نیند بھرا سناٹا جس دَم
بستی کی ایک ایک گلی میں
کھڑکی کھڑکی تھم جاتا ھے
دیواروں پر درد کا کہرا جم جاتا ھے
رستہ تکنے والی آنکھیں اور قندیلیں بُجھ جاتی ھیں
تو اُس لمحے،
تیری یاد کا ایندھن بن کر
شعلہ شعلہ ھم جلتے ھیں
دُوری کے موسم جلتے ھیں

تم کیا جانو،
قطرہ قطرہ دل میں اُترتی اور پگھلتی
رات کی صُحبت کیا ھو تی ھے!
آنکھیں سارے خواب بُجھا دیں
چہرے اپنے نقش گنوا دیں
اور آئینے عکس بُھلا دیں
ایسے میں اُمید کی وحشت
درد کی صُورت کیا ھوتی ھے؟
ایسی تیز ھوا میں پیارے،
بڑے بڑے منہ زور دئیے بھی کم جلتے ھیں
لیکن پھر بھی ھم جلتے ھیں
ھم جلتے ھیں اور ھمارے ساتھ تمہارے غم جلتے ھیں
دل کے آتشدان میں شب بھر
تیری یاد کا ایندھن بن کر
ھم جلتے ھیں!

- امجد اسلام امجد





0 comments:

Post a Comment