Sunday, November 30, 2014

جوش ملیح آبادی

ملا جو موقع تو روک دوں گا جلال روزِ حساب تیرا
پڑھوں گا رحمت کا وہ قصیدہ کہ ہنس پڑے گا عتاب تیرا
یہی تو ہیں دو ستُونِ محکم انہی پہ قائم ہے نظمِ عالم
یہی تو ہے رازِ خُلد و آدم ،نگاہ میری، شباب تیرا
صبا تصدّق ترےنفس پر ،چمن ترے پیرہن پہ قرباں
شمیمِ دوشیزگی میں کیسا بسا ہوا ہے شباب تیرا
تمام محفل کے رو برو ،گو اُٹھائیں نظریں، ملائیں آنکھیں
سمجھ سکا ایک بھی نہ لیکن، سوال میرا، جواب تیرا
ہزار شاخیں ادا سے لچکیں ، ہوا نہ تیرا سا لوچ پیدا
شفق نے کتنے ہی رنگ بدلے، ملا نہ رنگِ شباب تیرا
اِدھر مرا دل تڑپ رہا ہے، تری جوانی کی جستجو میں
اُدھر مرے دل کی آرزو میں مچل رہا ہے شباب تیرا
کرے گی دونوں کا چاک پردہ، رہے گا دونوں کو کر کے رُسوا
یہ شورشِ ذوقِ دید میری ،یہ اہتمامِ حجاب تیرا
جڑیں پہاڑوں کی ٹوٹ جاتیں، فلک تو کیا، عرش کانپ اُٹھتا
اگر میں دل پر نہ روک لیتا تمام زورِ شباب تیرا
بھلا ہوا جوش نے ہٹایا نگاہ کا چشمِ تر سے پردہ



سوزِ غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا 
جا تجھے کشمکشِ دہر سے آزاد کیا 
وہ کریں بھی تو کن الفاظ میں تیرا شکوہ 
جن کو تیری نگہِ لطف نے برباد کیا 
دل کی چوٹوں نے کبھی چین سے رہنے نہ دیا 
جب چلی سرد ہوا، میں نے تجھے یاد کیا
اے میں سو جان سے اس طرزِ تکلّم کے نثار
پھر تو فرمائیے، کیا آپ نے ارشاد کیا
اس کا رونا نہیں کیوں تم نے کیا دل برباد
اس کا غم ہے کہ بہت دیر میں برباد کیا
اتنا مانوس ہوں فطرت سے، کلی جب چٹکی
جھک کے میں نے یہ کہا، مجھ سے کچھ ارشاد کیا
مجھ کو تو ہوش نہیں تم کو خبر ہو شاید
لوگ کہتے ہیں کہ تم نے مجھے برباد کیا





مخلوق کو دیوانہ بنائے ہوئے مُردے
یاروں کے دماغوں کو چرائے ہوئے مردے
اوہام کے طوفان اُٹھائے ہوئے مُردے
عقلوں کو مزاروں پہ چڑھائے ہوئے مُردے
آفاق کو سرپر ہیں اُٹھائے ہوئے مُردے
دیکھو کہ ہیں کیا دھوم مچائے ہوئے مُردے
زندوں کا یہاں کوئی طلبگار نہیں ہے
زندوں کا یہاں کوئی مونس وغمخوار نہیں ہے
ایک فرد بھی، زندوں کا خریدار نہیں ہے
زندوں سے ہمیں کوئی سروکار نہیں ہے
ہم تو کلیجوں سے لگائے ہوئے مُردے
دیکھو کہ ہیں کیا دھوم مچائے ہوئے مُردے
پہنے ہوئے بوسیدہ روایات کا چوغا
باندھے ہوئے داؤد کی تانوں کا عمامہ
بغلوں میں دبائے ہوئے اقوال کا سونٹا
رقصیدہ ہیں لوبان جلائے ہوئے مُردے
دیکھو کہ ہیں کیا دھوم مچائے ہوئے مُردے
جوشؔ ملیح آبادی

0 comments:

Post a Comment