Saturday, November 29, 2014

عدیم ہاشمی



فاصلے ایسے بھی ہونگے یہ کبھی سوچا نہ تھا

سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا
وہ کہ خوشبو کی طرح پھیلا تھا میرے چار سو
میں اسے محسوس کر سکتا تھا چھو سکتا نہ تھا
رات بھر پچھلی ہی آہٹ کان میں آتی رہی
جھانک کر دیکھا گلی میں کوئی بھی آیا نہ تھا
عکس تو موجود تھا پر عکس تنہائی کا تھا
آئنہ تو تھا مگر اس میں ترا چہرا نہ تھا
آج اس نے درد بھی اپنے علیحدہ کر لیے
آج میں رویا تو میرے ساتھ وہ رویا نہ تھا
یہ سبھی ویرانیاں اس کے جدا ہونے سے تھیں
آنکھ دھندلائی ہوئی تھی شہر دھندلایا نہ تھا
یاد کر کے اور بھی تکلیف ہوتی تھی "عدیم"
بھول جانے کے سوا اب کوئی بھی چارہ نہ تھا



کٹ ہی گئی جدائی بھی، کب یہ ہوا کہ مر گئے 
تیرے بھی دن گزر گئے، میرے بھی دن گزر گئے

تو بھی کچھ اور اور ہے، ہم بھی کچھ اور اور ہیں
جانے وہ تو کدھر گیا، جانے وہ ہم کدھر گئے

راہوں میں ہی ملے تھے ہم، راہیں نصیب ہو گئیں
تو بھی نہ اپنے گھر گیا، ہم بھی نہ اپنے گھر گئے

وہ بھی غبارِ خواب تھا، ہم بھی غبارِ خواب تھے
وہ بھی کہیں بکھر گیا، ہم بھی کہیں بکھرگئے

تیرے لئے چلے تھے ہم، تیرے لئے ٹھہر گئے
تو نے کہا تو جی اُٹھے، تونے کہا تو مر گئے

ہوتا رہا مقابلہ پانی کا اور پیاس کا
صحرا امڈ امڈ پڑے، دریا بپھر بپھر گئے

کوئی کنارِ آب جُو بیٹھا ہوا ہے سرنگوں
کشتی کدھر چلی گئی، جانے کدھر بھنور گئے

آج بھی انتظار کا وقت حنوط ہو گیا
ایسا لگا کہ حشر تک سارے ہی پل ٹھہر گئے

بارشِ وصل وہ ہوئی سارا غبار دھل گیا
وہ بھی نکھر نکھر گیا، ہم بھی نکھر نکھر گئے

آبِ محیطِ عشق کا بحر عجیب بحر ہے
تَیرے تو غرق ہوگئے ، ڈوبے تو پار اُتر گئے



0 comments:

Post a Comment