فاصلے ایسے بھی ہونگے یہ کبھی سوچا نہ تھا
سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا
وہ کہ خوشبو کی طرح پھیلا تھا میرے چار سو
میں اسے محسوس کر سکتا تھا چھو سکتا نہ تھا
رات بھر پچھلی ہی آہٹ کان میں آتی رہی
جھانک کر دیکھا گلی میں کوئی بھی آیا نہ تھا
عکس تو موجود تھا پر عکس تنہائی کا تھا
آئنہ تو تھا مگر اس میں ترا چہرا نہ تھا
آج اس نے درد بھی اپنے علیحدہ کر لیے
آج میں رویا تو میرے ساتھ وہ رویا نہ تھا
یہ سبھی ویرانیاں اس کے جدا ہونے سے تھیں
آنکھ دھندلائی ہوئی تھی شہر دھندلایا نہ تھا
یاد کر کے اور بھی تکلیف ہوتی تھی "عدیم"
بھول جانے کے سوا اب کوئی بھی چارہ نہ تھا
کٹ ہی گئی جدائی بھی، کب یہ ہوا کہ مر گئے
تیرے بھی دن گزر گئے، میرے بھی دن گزر گئے
تو بھی کچھ اور اور ہے، ہم بھی کچھ اور اور ہیں
جانے وہ تو کدھر گیا، جانے وہ ہم کدھر گئے
راہوں میں ہی ملے تھے ہم، راہیں نصیب ہو گئیں
تو بھی نہ اپنے گھر گیا، ہم بھی نہ اپنے گھر گئے
وہ بھی غبارِ خواب تھا، ہم بھی غبارِ خواب تھے
وہ بھی کہیں بکھر گیا، ہم بھی کہیں بکھرگئے
تیرے لئے چلے تھے ہم، تیرے لئے ٹھہر گئے
تو نے کہا تو جی اُٹھے، تونے کہا تو مر گئے
ہوتا رہا مقابلہ پانی کا اور پیاس کا
صحرا امڈ امڈ پڑے، دریا بپھر بپھر گئے
کوئی کنارِ آب جُو بیٹھا ہوا ہے سرنگوں
کشتی کدھر چلی گئی، جانے کدھر بھنور گئے
آج بھی انتظار کا وقت حنوط ہو گیا
ایسا لگا کہ حشر تک سارے ہی پل ٹھہر گئے
بارشِ وصل وہ ہوئی سارا غبار دھل گیا
وہ بھی نکھر نکھر گیا، ہم بھی نکھر نکھر گئے
آبِ محیطِ عشق کا بحر عجیب بحر ہے
تَیرے تو غرق ہوگئے ، ڈوبے تو پار اُتر گئے
0 comments:
Post a Comment