Friday, November 14, 2014

مرزا غالب


دے مجھ کو شکایت کی اجازت کہ ستمگر ،

کچھ تجھ کر مزہ بھی مرے آزار میں آوے ،

.
اس چشم فسوں گر کا اگر پاۓ اشارہ ،
طوطی کی طرح آئنہ گفتار میں آوے ،
.
کانٹوں کی زباں سوکھ گئی پیاس سے یا رب ،
اک آبلہ پا وادی پر خار میں آوے ،
.
تب چاک گریباں کا مزہ ہے دل نالاں ،
جب اک نفس الجھا ہوا ہر تار میں آوے ،
.
آتشکدہ ہے سینہ مرا راز نہاں سے ،
اے واے ،اگر معرض اظہار میں آوے ،
.
.
.
گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے ،
جو لفظ کہ غالب ، مرے اشعار میں آوے ،
.
مرزا غالب .،.


نکتہ چین ہے غمِ دل اس کو سنائے نہ بنے
کیا بنے بات، جہاں بات بنائے نہ بنے

میں بلاتا تو ہوں اس کو مگر اے جذبہ دل
اس پہ بن جائے کچھ ایسی کہ بن آئے نہ بنے


کھیل سمجھا ہے کہیں چھوڑ نہ دے بھول نہ جائے
کاش یوں بھی ہو کہ بن میرے ستائے نہ بنے

غیر پھرتا ہے لیے یوں ترے خط کو کہ اگر
کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے تو چھپائے نہ بنے

اس نزاکت کا برا ہو، وہ بھلے ہیں تو کیا
ہاتھ آویں تو انہیں ہاتھ لگائے نہ بنے

کہہ سکے کون کہ یہ جلوہ گری کس کی ہے
پردہ چھوڑا ہے وہ اس نے کہ اٹھائے نہ بنے

موت کی راہ نہ دیکھوں؟ کہ بن آئے نہ رہے
تم کو چاہوں؟ کہ نہ آئو تو بلائے نہ بنے

بوجھ وہ سر سے گرا ہے کہ اٹھائے نہ اٹھے
کام وہ آن پڑا ہے کہ بنائے نہ بنے

عشق پر زور نہیں، ہے یہ وہ آتش غالب
کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بجھے






وہ فراق اور وہ وصال کہاں
وہ شب و روز و ماہ و سال کہاں

فرصتِ کاروبارِ شوق کِسے
ذوقِ نظارۂ جمال کہاں

دل تو دل وہ دماغ بھی نہ رہا
شورِ سودائے خطّ و خال کہاں

تھی وہ اِک شخص کے تصّور سے
اب وہ رعنائیِ خیال کہاں

ایسا آساں نہیں لہو رونا
دل میں‌ طاقت، جگر میں حال کہاں

ہم سے چُھوٹا قمار خانۂ عشق
واں جو جاویں، گرہ میں مال کہاں

فکرِ دُنیا میں سر کھپاتا ہوں
میں کہاں اور یہ وبال کہاں

مضمحل ہو گئے قویٰ غالب
وہ عناصر میں اعتدال کہاں






لازم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دِن اور 
تنہا گئے کیوں؟ اب رہو تنہا کوئی دن اور 
مٹ جائےگا سَر ،گر، ترا پتھر نہ گھِسے گا 
ہوں در پہ ترے ناصیہ فرسا کوئی دن اور 
آئے ہو کل اور آج ہی کہتے ہو کہ ’جاؤں؟‘ 
مانا کہ ہمیشہ نہیں اچھا کوئی دن اور 
جاتے ہوئے کہتے ہو ’قیامت کو ملیں گے‘ 
کیا خوب! قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور 
ہاں اے فلکِ پیر! جواں تھا ابھی عارف 
کیا تیرا بگڑ تا جو نہ مرتا کوئی دن اور 
تم ماہِ شبِ چار دہم تھے مرے گھر کے 
پھر کیوں نہ رہا گھر کا وہ نقشا کوئی دن اور 
تم کون سے ایسے تھے کھرے داد و ستد کے 
کرتا ملکُ الموت تقاضا کوئی دن اور 
مجھ سے تمہیں نفرت سہی، نیر سے لڑائی 
بچوں کا بھی دیکھا نہ تماشا کوئی دن اور 
گزری نہ بہرحال یہ مدت خوش و ناخوش 
کرنا تھا جواں مرگ گزارا کوئی دن اور 
ناداں ہو جو کہتے ہو کہ ’کیوں جیتے ہیں غالب‘ 
قسمت میں ہے مرنے کی تمنا کوئی دن اور




دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی 
دونوں کو اک ادا میں رضامند کر گئی


شق ہو گیا ہے سینہ خوشا لذّتِ فراغ 
تکلیفِ پردہ داریِ زخمِ جگر گئی

وہ بادہ شبانہ کی سر مستیاں کہاں 
اٹھیے بس اب کہ لذّتِ خوابِ سحر گئی

اڑتی پھرے ہے خاک مری کوۓ یار میں 
بارے اب اے ہوا ہوسِ بال و پر گئی

دیکھو تو دل فریبیِ اندازِ نقشِ پا 
موجِ خرامِ یار بھی کیا گل کتر گئی

ہر بو‌ل ہوس نے حسن پرستی شعار کی 
اب آبروۓ شیوہ اہلِ نظر گئی

نظّارے نے بھی کام کیا واں نقاب کا 
مستی سے ہر نگہ ترے رخ پر بکھر گئی

فردا و دی کا تفرقہ یک بار مٹ گیا 
کل تم گئے کہ ہم پہ قیامت گزر گئی

مارا زمانے نے اسدللہ خاں تمہیں 
وہ ولولے کہاں وہ جوانی کدھر گئی



اٹھا اک دن بگولا سا جو کچھ میں جوشِ وحشت میں 
پھرا آسیمہ سر، گھبراگیا تھا جی بیاباں سے 
نظر آیا مجھے اک طائرِ مجروح پَر بستہ 
ٹپکتا تھا سرِ شوریدہ دیوارِ گلستاں سے 
کہا میں نے کہ "او گمنام! آخر ماجرا کیا ہےَ 
پڑا ہے کام تجھ کو کس ستم گر آفتِ جاں سے" 
ہنسا کچھ کھلکھلا کر پہلے، پھر مجھ کو جو پہچانا 
تو یہ رویا کہ جوۓ خوں بہی پلکوں کے داماں سے 
کہا، " میں صید ہوں اُس کا کہ جس کے دامِ گیسو میں 
پھنسا کرتے ہیں طائر روز آ کر باغِ رضواں سے 
اسی کے زلف و رُخ کا دھیان ہے شام و سحر مجھ کو 
نہ مطلب کُفر سے ہے اور نہ ہے کچھ کام ایماں سے" 
بہ چشمِ غور جو دیکھا، مِرا ہی طائرِ دل تھا 
کہ جل کر ہو گیا یوں خاک میری آہِ سوزاں سے






درد ہو دل میں تو دوا کیجے 
دل ہی جب درد ہو تو کیا کیجے 
ہم کو فریاد کرنی آتی ہے 
آپ سنتے نہیں تو کیا کیجے 
ان بتوں کو خدا سے کیا مطلب 
توبہ توبہ، خدا خدا کیجے 
رنج اٹھانے سے بھی خوشی ہوگی 
پہلے دل درد آشنا کیجے 
عرضِ شوخی، نشاطِ عالم ہے 
حسن کو اور خود نما کیجے 
دشمنی ہو چکی بہ قدرِ وفا 
اب حقِ دوستی ادا کیجے 
موت آتی نہیں کہیں غالب 
کب تک افسوس زیست کا کیجے








0 comments:

Post a Comment