Thursday, November 13, 2014

بشیر بدر


کبھی یوں بھی آ مری آنکھ میں کہ مری نظر کوخبر نہ ہو

مجھے ایک رات نواز دے مگر اس کے بعد سحر نہ ہو



وہ بڑا رحیم و کریم ہے تجھے یہ صفَت بھی عطا کرے

تجھے بھولنے کی دعا کروں تو مری دعا میں اثر نہ ہو



مرے بازوؤں میں تھکی تھکی ابھی محو خواب ہے چاندنی

نہ اٹھے ستاروں کی پالکی ابھی آہٹوں کا گزر نہ ہو


یہ غزل کہ جیسے ہرن کی آنکھ میں پھیلی رات کی چاندنی
نہ بجھے خرابے کی روشنی کبھی بے چراغ یہ گھر نہ ہو

وہ فراق ہو کہ وصال ہو تری یاد مہکے گی ایک دن
وہ گلاب بن کے کھلے گا کیا جو چراغ بن کے جلا نہ ہو

کبھی دھوپ دے کبھی بدلیاں دل و جاں سے دونوں قبول ہیں
مگر اس نگر میں نہ قید کر جہاں زندگی کی ہوا نہ ہو

کبھی دن کی دھوپ میں جھول کے کبھی شب کے پھول کو چوم کے
یونہی ساتھ ساتھ چلیں سدا کبھی ختم اپنا سفر نہ ہو

مرے پاس مرے حبیب آ ذرا اور دل کے قریب آ
تجھے دھڑکنوں میں بسا لوں میں کہ بچھڑنے کا کبھی ڈر نہ ہو

- بشیر بدر



عبادتوں کی طرح میں یہ کام کرتا ہوں 
میرا اصول ہے پہلے سلام کرتا ہوں​

مخالفت سے میری شخصیت سنورتی ہے 
میں دشمنوں کا بڑا احترام کرتا ہوں​

میں اپنی جیب میں اپنا پتا نہیں رکھتا 
سفر میں صرف یہی اہتمام کرتا ہوں​

میں ڈر گیا ہوں بہت سایہ دار پیڑوں سے 
ذرا سی دھوپ بچھا کر قیام کرتا ہوں


کبھی یوں بھی آ مری آنکھ میں کہ مری نظر کوخبر نہ ہو

مجھے ایک رات نواز دے مگر اس کے بعد سحر نہ ہو





اداس آنکھوں سے آنسو نہیں نکلتے ہیں​
یہ موتیوں کی طرح سیپیوں میں پلتے ہیں​

گھنے دھوئیں میں فرشتے بھی آنکھ ملتے ہیں​
تمام رات کھجوروں کے پیڑ جلتے ہیں​

میں شاہ راہ نہیں راستے کا پتھر ہوں​
یہاں سوار بھی پیدل اتر کے چلتے ہیں​

انہیں کبھی نہ بتانا میں ان کی آنکھوں میں​
وہ لوگ پھول سمجھ کر مجھے مسلتے ہیں​

کئی ستاروں کو میں جانتا ہوں بچپن سے​
کہیں بھی جاؤں مرے ساتھ ساتھ چلتے ہیں​

یہ اک پیڑ ہے آ اس سے مل کے رو لیں ہم​
یہاں سے ترے مرے راستے بدلتے ہیں​



بشیر بدر


 ہمارا دل سویرے کا سنہرا جام ہو جائے
ہمارا دل سویرے کا سنہرا جام ہو جائے
چراغوں کی طرح آنکھیں جلیں جب شام ہو جائے

میں خود بھی احتیاطا" اُس طرف سے کم گزرتا ہوں
کوئی معصوم کیوں میرے لیئے بدنام ہو جائے

عجب حالات تھے یوں دل کا سودا ہو گیا آخر
محبت کی حویلی جس طرح نیلام ہو جائے

مجھے معلوم ہے اُس کا ٹھکانہ پھر کہاں ہو گا
پرندہ آسماں چھونے میں جب ناکام ہو جائے

سمندر کے سفر میں اس طرح آواز دے مجھ کو
ہوائیں تیز ہوں اور کشتیوں میں شام ہو جائے

اُجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے

بشیر بدر




پاس رہ کر جُدا سی لگتی ہے

زندگی بےوفا سی لگتی ہے

میں تمھارے بغیر بھی جی لوں
یہ دُعا، بددُعا سی لگتی ہے

نام اُس کا لکھا ہے آنکھوں پر
آنسوؤں کی خطا سی لگتی ہے

وہ ابھی اِس طرف سے گزرا ہے
یہ زمیں آسماں سی لگتی ہے

پیار کرنا بھی جُرم ہے شاید
آج دُنیا خفا سی لگتی ہے





کہیں پنگھٹوں کی ڈگر نہیں، کہیں آنچلوں کا نگر نہیں

یہ پہاڑ دھوپ کے پیڑ میں کہیں سایہ دار شجر نہیں

مجھے ایسی بات بتائیے جو کوئی سنے تو نئی لگے
کوئی شخص بھوک سے مرگیا یہ خبر تو کوئی خبر نہیں

تیرے نام سے میری راہ میں کوئی دکھ کے پھول بچھا گیا
میں تیری زمین کا خواب ہوں مجھے آسمان کا ڈر نہیں

میرے ہمسفر میرے راز داں یہ اداس پلکوں کے سائباں
تیرے ساتھ دھوپ کے راستوں کا سفر بھی کوئی سفر نہیں

کوئی میرؔ ہو کہ بشیرؔ ہو جو تمھارے ناز اٹھائیں ہم
یہ غزل کی دلی ہے با ادب ، یہاں بے ادب کا گزر نہیں

بشیر بدرؔ







یونہی بے سبب نہ پھرا کرو، کوئی شام گھر بھی رہا کرو
وہ غزل کی سچی کتاب ہے اسے چپکے چپکے پڑھا کرو
کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے 
یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلے سے ملا کرو
ابھی راہ میں کئی موڑ ہیں کوئی آئے گا کوئی جائے گا
تمہیں جس نے بھلا دیا اسے بھولنے کی دعا کرو
مجھے اشتہار سی لگتی ہیں یہ محبتوں کی کہانیاں
جو کہا نہیں وہ سنا کرو، جو سنا نہیں وہ کہا کرو
کبھی حسن پردہ نشیں بھی ہو ذرا عاشقانہ لباس میں
جو میں بن سنور کے کہیں چلوں مرے ساتھ تم بھی چلا کرو
نہیں بے حجاب وہ چاند سا کہ نظر کا کوئی اثر نہ ہو
اسے اتنی گرمئ شوق سے بڑی دیر تک نہ تکا کرو
یہ خزاں کی زرد سی شال میں جو اداس پیڑ کے پاس ہے
یہ تمہارے گھر کی بہار ہے اسے آنسوؤں سے ہرا کرو

0 comments:

Post a Comment