Thursday, November 13, 2014

حبیب جالب


اس رعونت سے وہ جیتے ہیں کے مرنا ہی نہیں

تخت پر بیٹھے ہیں یوں جیسے اترنا ہی نہیں



یوں مہ و انجم کی وادی میں اڑے پھرتے ہیں وہ

خاک کے ذروں پہ جیسے پاؤں دھرنا ہی نہیں



ان کا دعوی ہے کے سورج بھی انہی کا ہے غلام
شب جو ہم پر آئی ہے اس کو گزرنا ہی نہیں

کیا علاج اس کا اگر ہو مدعا ان کا یہی
اہتمامِ رنگ و بو گلشن میں کرنا ہی نہیں

دل بھی ان کے ہیں سیہ خوراک زنداں کی طرح
ان سے اپنا غم بیاں اب ہم کو کرنا ہی نہیں

انتہا کر لیں ستم کی لوگ ابھی ہیں خواب میں
جاگ اٹھے جب لوگ تو اُن کو ٹھہرنا ہی نہیں

 حبیب جالب




یہ ضابطہ ہے کہ باطل کو مت کہوں باطل
یہ ضابطہ ہے کہ گرداب کو کہوں ساحل

یہ ضابطہ ہے بنوں دست و بازو ئے قاتل
یہ ضابطہ ہے دھڑکنا بھی چھوڑ دےیہ دل

یہ ضابطہ ہے کہ غم کو نہ غم کہا جائے
یہ ضابطہ ہے ستم کو کرم کہا جائے

بیاں کروں نہ کبھی اپنی دل کی حالت کو
نہ لاؤں لب پہ کبھی شکوہ و شکایت کو

کمالِ حسن کہوں عیب کو جہالت کو
کبھی جگا وں نہ سوئ ہوئ عدالت کو

یہ ضابطہ ہے حقیقت کو اک فسانہ کہوں
یہ ضابطہ ہے قفس کو بھی آشیانہ کہوں

یہ ضابطہ ہے کہوں دشت کو گلستاں زار
خزاں کے روپ کو لکھوں فروغ حسن بہار

ہر ایک دشمن جاں کو کہوں میں ہمدم و یار
جو کاٹتی ہے سرِ حق ، وہ چوم لوں تلوار

خطا و جرم کہوں اپنی بے گناہی کو
سحر کا نور لکھوں رات کی سیاہی کو

جو مٹنے والے ہیں ان کے ليئے دوام لکھوں
ثنا ء یزید کی اور شمر پر سلام لکھوں

جو ڈس رہا ہے وطن کو نہ اس کا نام لکھوں
سمجھ سکیں نہ جسے لوگ وہ کلام لکھوں

دروغ گو ئ کو سچائ کا پیام کہوں
جو راہ زن ہے اسے رہبر عوام کہوں

میرے جنوں کو نہ پہنا سکو گے تم زنجیر
نہ ہو سکے گا کبھی تم سے میرا ذہن اسیر

جو دیکھتا ہوں جو سچ ہے کروں گا وہ تحریر
متاع ہر دو جہاں بھی نہیں بہائے ضمیر

نہ دے سکے گي سہارہ تمہیں کو ئ تدبیر
فنا تمہار ا مقد ر بقا میری تقدیر

 حبیب جالب





کوئ ممنونِ فرنگی ،کوئ ڈالر کا غلام
دھڑکنیں محکوم ان کی لب پہ آزادی کانام
ان کو کیا معلوم کس حالت میں رہتے ہیں عوام
یہ وزیرانِ کرام

ان کو فرصت ہے بہت اونچے امیروں کے لیے
ان کے ٹیلیفون قائم ہیں سفیروں کے لیے
وقت ان کے پاس کب ہے ہم فقیروں کے لیے
چھو نہیں سکتے انہیں ہم ان کا اونچا ہے مقام
یہ وزیرانِ کرام

صبح چاے ہے یہاں تو شام کھانا ہے وہاں
کیوں نہ ہوں مغرور چلتی ہے میاں ان کی دکاں
جب یہ چاہیں ریڈیو پر جھاڑ سکتے ہیں بیاں
ہم ہیں پیدل ،کار پر یہ کس طرح ہوں ہمکلام
یہ وزیرانِ کرام

قوم کی خاطر اسمبلی میں یہ مر جاتے بھی ہیں
قوتِ بازو سے اپنی بات منواتے بھی ہیں
گالیاں دیتے بھی ہیں اور گالیاں کھاتے بھی ہیں
یہ وطن کے آبرو ہیں کیجیے ان کو سلام
یہ وزیرانِ کرام

ان کی محبوبابہ وزارت ، داشتائیں کرسیاں
جان جاتی ہے تو جاے پر نہ جائیں کرسیاں
دیکھیے یہ کب تلک یوں ہی چلائیں کرسیاں
عارضی ان کی حکومت عارضی ان کا قیام
یہ وزیرانِ کرام

 حبیب جالب




ایک آواز سے ایوان لرز اُٹھے ہیں
لوگ جاتے ہیں تو سلطان لرز اُٹھے ہیں

آمدِ صبحِ بہاراں کی خبر سنتے ہی
ظلمتِ شب کے نگہبان لرز اُٹھے ہیں

دیکھ کے لہر مرے دیس میں آزادی کی
قصرِ افرنگ کے دربان لرز اُٹھے ہیں

مشعلیں لے کے نکل آئے ہیں مظلوم عوام
غم و اندوہ میں ڈوبی ہے محلّات کی شام

یاس کا دور گیا خوف کی زنجیر کٹی
آج سہمے ہوئے لوگوں کو ملا اذنِ کلام

راہ میں لاکھ صداقت کے مخالف آئے
قوم نے سُن ہی لیا مادرِ ملّت کا پیام

ماں کے قدموں ہی میں جنّت ہے ادھر آجاؤ
ایک بے لوث محبت ہے ادھر آجاؤ

وہ پھر آئی ہیں ہمیں ملک دلانے کے لئے
ان کی یہ ہم پر عنایت ہے ادھر آجاؤ

’اس طرف ظلم ہے بیداد ہے حق تلفی ہے
اِس طرف پیار ہے الفت ہے ادھر آجاؤ

۔ حبیب جالب



دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو، صبح بےنور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

میں بھی خائف نہیں تختہ دار سے
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
ظلم کی بات کو، جہل کی رات کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

پھول شاخوں پہ کھلنے لگے،تم کہو
جام رندوں کو ملنے لگے،تم کہو
چاک سینوں کے سلنے لگے ،تم کہو
اِس کھلے جھوٹ کو، ذہن کی لوٹ کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
اب نہ ہم پر چلے گا تمھارا فسوں
چارہ گر میں تمہیں کس طرح سے کہوں
تم نہیں چارہ گر، کوئی مانے، مگر
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا




محبت کی رنگینیاں چھوڑ آئے
ترے شہر میں اک جہاں چھوڑ آئے

پہاڑوں کی وہ مست شاداب وادی
جہاں ہم دلِ نغمہ خواں چھوڑ آئے

وہ سبزہ ، وہ دریا، وہ پیڑوں کے سائے
وہ گیتوں بھری بستیاں چھوڑ آئے

حسیں پنگھٹوں کا وہ چاندی سا پانی
وہ برکھا کی رت وہ سماں چھوڑ آئے

بہت دور ہم آگئے اس گلی سے
بہت دور وہ آستاں چھوڑ آئے

بہت مہرباں تھیں وہ گلپوش راہیں
مگر ہم انہیں مہرباں چھوڑ آئے

بگولوں کی صورت یہاں پھر رہے ہیں
نشیمن سرِ گلستاں چھوڑ آئے

یہ اعجاز ہے حسنِ آوارگی کا
جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے

چلے آئے ان راہگزاروں سے جالب
مگر ہم وہاں قلب و جاں چھوڑ آئے

0 comments:

Post a Comment