Thursday, November 27, 2014

شہزاد احمد


یہ سوچ کر کہ تیری جبیں پر نہ بل پڑے

بس دور ہی سے دیکھ لیا اور چل پڑے



دل میں پھر اِک کسک سی اٹھی مدتوں کے بعد

اِک عمر سے رکے ہوئے آنسو نکل پڑے

سینے میں بے قرار ہیں مردہ محبتیں
ممکن ہے یہ چراغ کبھی خود ہی جل پڑے

اے دل تجھے بدلتی ہوئی رُت سے کیا ملا
پودوں میں پھول اور درختوں میں پھل پڑے

اب کس کے انتظار میں جاگیں تمام شب
وہ ساتھ ہو تو نیند میں کیسے خلل پڑے

شہزاد دل کو ضبط کا یارا نہیں رہا
نکلا جو ماہتاب سمندر اچھل پڑے

شہزاد احمد



گِلے ہزار سہی، حد سے ہم بڑھیں گے نہیں
ہے کوئی بات مگر آپ سے کہیں گے نہیں

ہم اِس لڑائی کو شرطِ ادب سمجھتے ہیں
وہ سامنے بھی اگر آ گیا، مِلیں گے نہیں

جو بات دِل میں ہے، خود اپنے کان میں کہہ لے
یہ گفتگو در و دیوار تو سُنیں گے نہیں

جہاں میں کوئی بھی شے بے سَبب نہیں ہوتی
سَبب کوئی بھی ہو، اِنکار ہم سُنیں گے نہیں

عجب نہیں کہ ، اِسی بات پر لڑائی ہو
معاہدہ یہ ہُوا ہے، کہ اب لڑیں گے نہیں

کِسی بھی خوف سے کیوں چھوڑدیں تِری قُربت
کہیں بھی جائیں، اِس الزام سے بچیں گے نہیں

جو ہم نے دیکھا ہے لفظوں میں کیسے آئے گا
جو نقش دِل میں ہیں، وہ ریت پر بنیں گے نہیں

ہوا کے ساتھ لپکتی ہے تِیرگی شہزاد
چراغ ہوں بھی تو اِس رات میں جلیں گے نہیں

شہزاد احمد




جل بھی چکے پروانے، ہو بھی چکی رسوائی
اب خاک اُڑانے کو بیٹھے ہیں تماشائی

تاروں کی ضیا دل میں اک آگ لگاتی ہے
آرام سے راتوں کو سوتے نہیں سودائی

راتوں کی اُداسی میں خاموش ہے دل میرا
بے حس ہیں تمنائیں، نیند آئی کہ موت آئی

اب دل کو کسی کروٹ آرام نہیں ملتا
اک عمر کا رونا ہے، دو دن کی شناسائی

اک شام وہ آئے تھے، اک رات فروزاں تھی
وہ شام نہیں لوٹی وہ رات نہیں آئی

شہزادؔ احمد







0 comments:

Post a Comment