Thursday, November 27, 2014

جگرمراد آبادی


اُوس پڑے بہار پر آگ لگے کنار میں

تم جو نہیں کنار میں، لطف کیا بہار میں



اس پر کرئے خدا رحم گردشِ روزگار میں

اپنی تلاش چھوڑ کر جو ہے تلاشِ یار میں

ہم کہیں جانے والے ہیں دامنِ عشق چھوڑ کر
زیست تیرے حضور میں، موت تیرے دیار میں



جگرمراد آبادی



تجھی سے ابتدا ہے، تو ہی اک دن انتہا ہوگا
صدائے ساز ہوگی اور نہ ساز بے صدا ہوگا

ہمیں‌ معلوم ہے، ہم سے سنو محشر میں‌کیا ہوگا
سب اس کو دیکھتے ہوں‌گے، وہ ہم کو دیکھتا ہوگا

سرمحشر ہم ایسے عاصیوں کا اور کیا ہوگا
درِجنت نہ وا ہوگا، درِ رحمت تو وا ہوگا

جہنم ہو کہ جنت ، جو بھی ہوگا فیصلہ ہوگا
یہ کیا کم ہے ہمارا اور اُن کا سامنا ہوگا

ازل ہو یا ابد دونوں اسیر زلف حضرت ہیں
جدھر نظریں‌اُٹھاؤ گے، یہی اک سلسلہ ہوگا

یہ نسبت عشق کی بے رنگ لائے رہ نہیں‌سکتی
جو محبوب خدا ہوگا، وہ محبوبِ خدا ہوگا

اسی امید پر ہم طالبان درد جیتے ہیں
خوشا دردے کہ تیرا درد، در د ِ لا دوا ہوگا

نگاہِ قہر پر بھی جان و دل سب کھوئے بیٹھا ہے 
نگاہِ مہر ِ عاشق پر اگر ہوگی تو کیا ہوگا

یہ مانا بھیج دے گا ہم کو محشر سے جہنم میں
مگر جو دل پہ گذرے گی، وہ دل ہی جانتا ہوگا

سمجھتا کیا ہے تو دیوانگاہِ عشق کو زاہد؟
یہ ہو جائیں گی جس جانب، اسی جانب خدا ہوگا

جگر کا ہاتھ ہوگا حشر میں اور دامنِ حضرت 
شکایت ہوگا، شکوہ جو بھی ہوگا، برملا ہوگا






دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد 
اب مجھ کو نہیں کچھ بھی محبت کے سوا یاد

چھیڑا تھا جسے پہلے پہل تیری نظر نے
اب تک ہے وہ اک نغمہء بے ساز و صدا یاد

کیا لطف کہ میں اپنا پتہ آپ بتاؤں
کیجیئے کوئی بھولی ہوئی خاص اپنی ادا یاد

جب کوئی حسیں ہوتا ہے سرگرم نوازش
اس وقت وہ کچھ اور بھی آتے ہیں سوا یاد

کیا جانیے کیا ہو گیا ارباب جنوں کو
مرنے کی ادا یاد نہ جینے کی ادا یاد

مدت ہوئی اک حادثہ ء عشق کو لیکن
اب تک ہے ترے دل کے دھڑکنے کی صدا یاد




نہ راہزن، نہ کسی رہنما نے لوٹ لیا
ادائے عشق کو رسمِ وفا نے لوٹ لیا

نہ پوچھو شومئی تقدیرِ خانہ بربادی
جمالِ یار کہاں نقشِ پا نے لوٹ لیا


دل تباہ کی روداد، اور کیا کہئے
خود اپنے شہر کو فرماں روا نے لوٹ لیا

زباں خموش، نظر بیقرار، چہرہ فق
تجھے بھی کیا تری کافر ادا نے لوٹ لیا

نہ اب خودی کا پتہ ہے نہ بیخودی کا جگر
ہر ایک لطف کو لطفِ خدا نے لوٹ لیا

جگر مراد آبادی

0 comments:

Post a Comment