Thursday, November 27, 2014

اطہر نفیس


تو ملا تھا اور میرے حال پر رویا بھی تھا

میرے سینے میں کبھی اک اضطراب ایسا بھی تھا
زندگی تنہا نہ تھی اے عشق تیری راہ میں
دھوپ تھی، صحرا تھا اور اک مہرباں سایہ بھی تھا
عشق کے صحرا نشینوں سے ملاقاتیں بھی تھیں
حسن کے شہر نگاراں میں بہت چرچا بھی تھا
ہر فسردہ آنکھ سے مانوس تھی اپنی نظر
دکھ بھرے سینے سے ہم رشتہ مرا سینہ بھی تھا
تھک بھی جاتے تھے اگر صحرا نوردی سے تو کیا
متصل صحرا کے اک وجد آفریں صحرا بھی تھا




سکوتِ شب سے اک نغمہ سنا ہے

وہی کانوں میں اب تک گونجتا ہے
غنیمت ہے کہ اپنے غم زدوں کو
وہ حسنِ خود نگر پہچانتا ہے
بہت چھوٹے ہیں مجھ سے میرے دشمن
جو میرا دوست ہے مجھ سے بڑا ہے
مجھے ہر آن کچھ بننا پڑے گا
مری ہر سانس میری ابتدا ہے۔۔





اطہر تم نے عشق کیا کچھ تم بھی کہو کیا حال ہوا

کوئی نیا احساس ملا یا سب جیسا احوال ہوا
راہ وفا میں جاں دینا بھی پیش روں کا شیو ہ تھا
ہم نے جب سے جینا سیکھا جینا کا رِ مثال ہوا
عشق افسانہ تھا جب تک اپنے بھی بہت افسانے تھے
عشق صداقت ہو تے ہوتے کتنا کم احوال ہوا
راہ وفا دشوار بہت تھی تم کیوں میرے ساتھ آئے
پھول سا چہرا کمہلایا اور رنگِ حنا پامال ہوا







دم بد م بڑھ رہی ہے یہ کیسی صدا شہر والو سنو
جیسے آئے دبے پاؤں شہرِ بلا شہر والو سنو
خاک اڑاتی نہ تھی اس طرح تو ہوا اس کو کیا ہوگیا
دیکھو آواز دیتا ہے اک سانحہ شہر والو سنو
عمر بھر کا سفر جس کا حاصل ہے اک لمحہٴ مختصر
کس نے کیا کھو دیا کس نے کیا پا لیا شہر والو سنو
اس کی بے خو ف آنکھوں میں جھانکوں کبھی اس کو سمجھوں کبھی
اس کو بیدار رکھتا ہے کیا واقعہ شہر والو سنو



وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا اب اس کا حال بتائیں کیا
کوئی مہر نہیں کوئی قہر نہیں کوئی سچا شعر سنائیں کیا

اک ہجر جو ہم کو لاحق ہے تادیر اسے دہرائیں کیا
وہ زہر جو دل میں اتار دیا پھر اس کے ناز اٹھائیں کیا

پھر آنکھیں لہو سے خالی ہیں یہ شمعیں بجھنے والی ہیں
ہم خود بھی کسی سے سوالی ہیں اس بات پہ ہم شرمائیں کیا

ہم نغمہ سرا کچھ غزلوں کے ہم صورت گر کچھ خوابوں کے
بے جذبہٴ شوق سنائیں کیا کوئی خواب نہ ہو تو بتائیں کیا

اک آگ غم تنہائی کی جو سارے بدن میں پھیل گئی
جب جسم ہی سارا جلتا ہو پھر دامن دل کو بچائیں کیا

اطہر نفیس

0 comments:

Post a Comment